کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 3
اِسناد ومتن کا معنی ومفہوم
ادلہ شرعیہ کے تذکرہ میں قرآن کے بعد آئمہ سنت علی العموم علوم نبوت کے متعلق چار لفظ ذکر فرماتے ہیں :
1۔ خبر 2۔ اَثر 3۔ حدیث 4۔ سنت
عاملین بالحدیث جو کتاب اللہ کے بعد حدیث کی حجیت پر یقین رکھتے ہیں اور اسے حجت شرعی سمجھتے ہیں وہ دین کی کتابوں میں مختلف نسبتوں سے مشہور ہیں ، مثلا:
1۔ اہل السنہ 2۔ اہل الحدیث 3۔ اہل الاثر
عموما حدیث وسنت کے نقل میں اخبار وآثار دو اشیاء پر مشتمل ہوتے ہیں: 1۔ اِسناد 2۔ متن
مزید برآں اہل الحدیث اور اہل الاثر نے ناقلین حدیث کی متنوع صلاحیتوں کے لحاظ سے ان کو مختلف اصطلاحی ناموں سے بیان کیا ہے، جیسے: الحافظ، المحدّث،الحجّۃ، الحاکم وغیرہ۔
اس فصل میں انہی بنیادی اصطلاحات اور تعبیرات کو بیان کیا جائے گا۔
سند کا مفہوم
٭ لغوی مفہوم
٭ امام خلیل بن احمد رحمہ اللہ (م۵۷۱ھ)نے لفظ سند کی وضاحت یوں کی ہے:
السند ما ارتفع من الأرض فی قبل جبل أو واد وکل شیء أسندت الیہ شیئا فھو مسند ۱؎
’’سند پہاڑ یا وادی میں بلند مقام کو کہتے ہیں اور ہر وہ چیز جس پر کوئی چیز بھروسہ کرے مسنَدکہلاتی ہے ۔ ‘‘
٭ ابن منظور افریقی رحمہ اللہ (م۷۱۱ھ) فرماتے ہیں :
السند ما ارتفع من الأرض فی قبل الجبل أو الوادی والجمع الاسناد ۲؎
’’سند وادی یا پہاڑ میں بلند جگہ کو کہتے ہیں اوراس کی جمع اسناد ہے ۔ ‘‘
٭ علامہ مجد الدین فیروز آبادی رحمہ اللہ (م۷۱۲ھ) رقمطراز ہیں:
السند ما قابلک من الجبل وعلا عن السفح ومعتمد الانسان وضرب من البرود ،وجمعہ أسناد ۳؎
’’سند کہتے ہیں پہاڑ کے اس حصے کو جو تمہارے بالمقابل ہو ، دامنِ کوہ سے بلند ہو ، قابل اعتماد شخص کو بھی ’سند‘ کہتے ہیں اور اسی طرح کپڑوں کی ایک قسم بھی’سند‘ کہلاتی ہے اور اس کی جمع اسناد ہے ۔ ‘‘
٭ امام زبیدی رحمہ اللہ (م۱۲۰۵ھ)نے سند کا وہی معنی بیان کیا ہے جو امام ابن منظور رحمہ اللہ نے کیا ہے ۔ مزید فرماتے ہیں :
’’ مجازی طور پر قابل اعتماد شخص کو بھی سند کہہ دیا جاتا ہے، جیسے یوں کہا جاتا ہے کہ’سیّد سند‘ یعنی سید قابل اعتماد ہوتا ہے وغیرہ ۔۴؎
٭ امام زَین الدین رازی رحمہ اللہ (م۷۷۷ھ) سند کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
فلان سند أی معتمد ۵؎
’’ فلاں شخص سند ہے یعنی قابل اعتماد ہے ۔ ‘‘