کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 214
حقیقت ہے کہ یہ اُصول اِمام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ ھ) یاان کے تلامذہ سے نہیں ملتا، بلکہ یہ عیسیٰ بن ابان کا مذہب ہے، جس پر بہت سے متاخرین نے اس کی متابعت کر لی۔علامہ کرخی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’راوی کی فقہ کا روایت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتابلکہ روایت کاسارا دارومدار راوی کے عادل وضابط ہونے پر ہے‘‘۔ رہ گئے یہ مظلوم صحابہ رضی اللہ عنہم تو فقط حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اِمام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ ھ)کا قول سنیے: ’’ان سے تقریباً ۸۰۰ صحابہ و تابعین نے علم حدیث کی روایت کی وہ حدیث کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے اور اس کی حفاظت کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے۔ وہ قرآن کے قاری)عالم( اور فصیح عربی تھے اورعربیت ان کا مزاج تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کی روایت کی طرف رجوع کرتے اور اس پر عمل کرتے تھے۔ ہاں ان کی فقہ ایک دوسری ہی قسم کی تھی۔ جس میں خواطر وآراء نہ تھے‘‘۔۸۰؎ یاد رہے کہ اس جلیل القدر صحابی کے بارے میں غیر فقیہ کا الزام تو ایک رہا ان کے مجتہد ہونے کے لیے اتنا ثابت ہونا ہی کافی ہے کہ دورِ صدیقی میں مدینہ کے قاضی اور مفتی رہے ہیں ۔ ۸۱؎ ٭ قبول حدیث کے لیے راوی ِحدیث کے فقیہ ہونے کی شرط سلف امت اور علماء اہل سنت سے ثابت نہیں ہے، بلکہ متقدمین علمائے احناف ایسی شرائط لگانے کے خود شدید مخالف تھے۔ علم حدیث اور علم فقہ کی باہمی کشمکش سے جو چیز ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ رواۃ حدیث رحمہم اللہ کے لیے فقیہ ہونا یا فقہاء کرام رحمہم اللہ کے لیے محدثانہ بصیرت ہونا جیسی شرئط عملا کہاں پوری ہوئی ہیں ۔ مثلا کتنے ہی جلیل القدر فقہاء صفت فقاہت سے متصف ہونے کے باوجود صحیح اور ضعیف میں امتیاز نہیں کرسکتے اور انہوں نے اپنی تالیفات میں بہت سی ایسی روایات سے استدلال کیا ہے، جو حقیقت میں ضعیف ہیں بلکہ بعض ان میں سے موضوع ہیں ۔ فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ، بلکہ فقہ حنفی کی ہر کتاب سے ایسی بیسیوں روایات پیش کی جاسکتی ہے جو غیر ثابت اور ناقابل قبول ہیں اور ان سے ایسے ایسے علما ء نے استدلال کیا ہے جن کی فقاہت اپنے اپنے مذہب میں مسلم ہے۔ اسی لئے علماء نے کتب فقہ میں وارد روایات میں احتیاط کا حکم دیا ہے اور تحقیق کے بغیر انہیں قبول کرنے سے منع کیا ہے۔ ٭ جیسا کہ شیخ محمد جمال الدین قاسمی دمشقی رحمہ اللہ (م ۱۳۳۲ ھ) فرماتے ہیں : ولا عبرۃ بنقل صاحب النہایۃ وغیرہ من بقیۃ شراح الھدایۃ فإنہم لیسوا من المحدثین ولا أسندوا الحدیث إلی أحد من المخرجین۸۲؎ ’’صاحب نہایہ یا ہدایہ کے دیگر شارحین کے روایات نقل کرنے کا کوئی اعتبار نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ محدثین میں سے نہیں ہیں اور نہ ہی انہوں نے احادیث کو ان کے اصل مخرج کی طرف منسوب کیا ہے۔‘‘ مثال کے طور پر فقہ حنفی کی کتاب ’ہدایۃ‘ میں نما زکے دوران ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے سے متعلق کہا گیا ہے: ویعتمد بیدہ الیمنی علی الیسری تحت السرۃ لقولہ علیہ السلام ان من السنۃ وضع الیمین علی الشمال تحت السرۃ وھو حجۃ علی مالک فی الارسال وعلی الشافعی فی الوضع علی الصدر ۸۳؎ ’’ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں پر رکھ کر ناف کے نیچے باندھے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ کر ناف کے نیچے باندھنا سنت ہے۔ یہ حدیث اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ ھ)کے خلاف ہے جو نماز میں ہاتھ چھوڑ کر کھڑا ہونے کے قائل ہیں اور اِمام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ ھ)کے بھی خلاف ہے جو نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں ۔‘‘ لیکن اس روایت کے متعلق ہدایہ کے حاشیہ میں ہی منقول ہے: ضعیف متفق علی ضعفہ یعنی اس روایت کے ضعیف ہونے