کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 213
٭ شرح فتح القدیر میں اس مناظرہ کو ذکر کرنے کے بعد یہ ریمارکس دیئے گئے ہیں :
فرجح بفقہ الرواۃ کما رجح الأوزاعی بعلوالإسناد وھو المذھب المنصور عندنا ۷۷؎
’’اِمام اوزاعی رحمہ اللہ (م۱۵۸ ھ)نے تو سند عالی کے ساتھ اپنی(اثبات رفع یدین کی)حدیث کو ترجیح دی ہے لیکن اِمام ابوحنیفہ(م۱۵۰ھ) نے فقہ رواۃ کی بنیاد پراپنی (ترک رفع کی) روایت کو راجح قرار دیا ہے اور فقہ راوی کی وجہ سے کسی حدیث کو ترجیح دینا ہی ہمارا مذہب ہے جسے تائید حاصل ہے۔‘‘
٭ یہ مناظرہ جو کتب حنفیہ میں قبول حدیث کے لئے فقہ راوی کی شرط پردلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے خود ساختہ ہے، جس کا دارومدار سلیمان شاذکوفی پرہے جو أکذب الناس فی الحدیث ہے۔ اس کے علاوہ اس میں ’حارثی‘ ہے جو ضعیف الروایہ ہے۔
علمائے احناف کی طرف سے قبول حدیث کے لئے ’فقہ راوی‘ کی شرط عائد کرنا خلاف معقول ہے، کیونکہ رواۃ حدیث کا اصل مقصد ان اقوال و افعال نیز تقریرات کوامت تک پہنچانا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحت کے ساتھ ثابت ہیں ، بنابریں راویوں کے لئے عدالت و ثقاہت اور حفظ و ضبط جیسی شرطیں بالکل کافی و وافی ہیں ، جو فن حدیث کے ماہر محدثین کرام رحمہم اللہ نے عائد کی ہیں ۔ رواۃ حدیث کے پیش نظر استنباط و استخراج نہیں ہوتا کہ ان کے لئے فقاہت کی شرط لگانے کی ضرورت پیش آئے۔
٭ محترم سالم علی رحمہ اللہ احناف کی طر ف سے فقہ راوی کی شرط کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں :
أما ما نسب إلی الأحناف من تقدیم القیاس علی سنۃ الأحاد إن کان راوی الحدیث لم یشتھر بالفقہ کما فی روایات أنس بن مالک وأبی ہریرۃ لأنہما وإن عرفا بالضبط والعدالۃ ولکن لم یعرفا بالفقہ،فمردود علیہ بما قالہ الفقیہ الحنفی أبو الیسر فقد جاء فی کشف الأسرار أنہ قال: المنقول عن أصحابنا أن خبر الواحد مقدم علی القیاس، لم ینقل عن أحد من السلف اشتراط الفقہ فی الراوی فثبت أن ھذا القول مستحدث وأیضا ما نقلہ ابن امیر الحاج من أن الاِمام أبا حنیفۃ کغیرہ کان یقدم سنۃ الآحاد علی القیاس سواء کان الراوی فقیہا أوغیر فقیہ وذلک من روایۃ أبی الحسن الکرخی عن الإمام رحمہ اللہ ۷۸؎
’’احناف کا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو عادل و ضابط کہنااور انہیں فقیہ نہ ماننااور یہ دعویٰ کرنا کہ ایسے غیرفقیہ راوی کی حدیث پر قیاس کو تقدیم حاصل ہوگی یہ دعویٰ مردود ہے، جیساکہ حنفی فقیہ ابو الیسر رحمہ اللہ نے کہا ہے اور کشف الاسرارمیں ہے کہ ہمارے حنفی بھائیوں سے یہی منقول ہے کہ قیاس پر خبر واحد مقدم ہوگی اور سلف میں سے کسی نے بھی فقہ راوی کی شرط نہیں لگائی، معلوم ہواکہ راوی کے لئے فقیہ ہونے کی شرط لگانا خود ساختہ نوپید قول ہے اور ابن امیر الحاج رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ دیگر علماء کی طرح اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ ھ) بھی قیاس پر خبر واحد کو فوقیت دیتے تھے اس کا راوی فقیہ ہو یا نہ ہو اور ابوالحسن کرخی رحمہ اللہ نے بھی اِمام صاحب سے یہی نقل کیا ہے۔‘‘
٭ علامہ عاصم الحداد رحمہ اللہ علمائے احناف کے مذکورہ درایتی اصول پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
’’اپنے اس اصول کے تحت انہوں نے بہت سی ان احادیث کو ترک کردیا ہے جن کے راوی ابو ہریرۃ، انس ، سلمان، بلال یا جابر رضی اللہ عنہم وغیرہ ہیں ، جیسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مصراۃ.... اسی طرح انہوں نے صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث چھوڑدی ہے کہ کچھ لوگ مدینہ آئے لیکن وہاں کی آب وہوا راس نہ آئی او ر اُن کے پیٹ پھول گئے۔ نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم نے انہیں اونٹوں کا دودھ اور پیشاپ پینے کی اجازت دی۔‘‘ ۷۹؎
٭ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ ھ) احناف کی طرف سے پیش کردہ اس اصول پر یوں تبصرہ فرماتے ہیں :
’درایت ‘کے اس اُصول میں علم واجتہاد سے بہرہ ور بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ بے ادبی کا پہلو تو پایا ہی جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی