کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 212
کہنا اور اسے بہ آواز بلند کہنا ترک کردیا تھا اور یہ صورتحال جاری رہی یہاں تک کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ عراق آئے اور وہاں انہوں نے نماز میں بہ آواز بلند جھکتے او راٹھتے وقت اللہ اکبر کہا تو ایک صحابی( عمران بن حصین رضی اللہ عنہ) نے کہا: اس شخص نے ہمیں ہماری وہ نماز یاد دلا دی ہے، جسے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ادا کیا کرتے تھے‘‘۔۷۳؎ 7۔ خلاف قیاس روایات ان درایتی اصولوں میں سے، جن میں بعض متاخرین فقہاء نے فقہی قیاس کو ’درایت‘ کا نام دے کر حدیث نبوی پر فوقیت دی ہے، سب سے اہم اصول یہ ہے کہ اگر غیر فقیہ راوی ایسی رویت بیان کرے جو قیاس کے مخالف ہے تو قیاس کو روایت پر ترجیح ہوگی۔ ٭ اِمام سرخسی رحمہ اللہ (م ۴۹۰ ھ) نے اسی ضمن میں رواۃ حدیث کو معروف اور مجہول دو قسموں میں تقسیم کیا ہے، اس کے بعدانہوں نے معروف راویوں کی دو اقسام ذکر کی ہیں : 1۔ وہ راوی جو فقہ میں مشہور ہیں ، ان کی روایت کردہ خبر حجت ہوگی اور اس پر عمل کرنا واجب ہوگا خواہ وہ قیاس کے خلاف بھی ہو۔ 2۔ وہ رواۃ جوحفظ و ضبط اور عدالت سے متصف ہوں لیکن ان میں فقاہت کی کمی ہو جیسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ وغیرہ کی بیان کردہ روایات اگر قیاس کے موافق ہوں تو قابل عمل ہوں گی اور اگر قیاس کے خلاف ہوں اور انہیں تلقی بالقبول بھی حاصل ہو تو قبول ہوں گی ورنہ قیاس مقدم ہوگا اور اس کے خلاف ان قلیل الفقہ راویوں کی حدیث چھوڑ دی جائے گی۔ ۷۴؎ ٭ اسی ضمن میں نظام الدین الشاشی رحمہ اللہ بھی رقم طراز ہیں : ’’ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو نقل کرنے والے رواۃ دو اقسام پر مشتمل ہیں : 1۔ علم واجتہاد میں معروف رواۃ: مثلاًخلفاء راشدین ،عبداللہ بن مسعود،عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر،زید بن ثابت اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم وغیرہ ۔ان حضرات کی روایت پر عمل کرنا قیاس پر عمل کرنے سے اولیٰ ہے ۔ 2۔ دوسری قسم ان ر واۃ کی ہے جو حفظ وعدالت میں تو معروف ہیں ، لیکن اجتہاد وفتوی میں معروف نہیں ۔جیسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ وغیرہ ، اگر ان حضرات کی روایات قیاس کے خلاف ہوں تو قیاس پر عمل اولیٰ ہوگا۔ اسی بناء پر ہمارے اصحاب نے قیاس کے مقابلہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرویحدیث المصرّاۃ پر عمل ترک کردیا ہے۔‘‘ ۷۵؎ ’ فقہ راوی کی شرط‘ کا تنقیدی جائزہ فقہ ِ امام کو حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موافقت دینے کے قبیل سے جو سب سے اہم اصول قبول حدیث کے لئے بعض متاخرین فقہائے احناف رحمہم اللہ نے پیش کیا ہے، وہ راوی حدیث کے ’فقیہ‘ ہونے کا اصول ہے اور اس طرز فکر کا شعوری یا لا شعوری طور پر اثر یہ ہوا کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو غیر فقیہ قرار دے کر ان سے مروی احادیث نبویہ پرفقہی قیاس کو فوقیت دینے کا رویہ سامنے آیا۔ فقہ راوی کی وجہ سے کسی حدیث کو ترجیح دینے کی مثال وہ مناظرہ ہے جواِمام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ ھ)اور اِمام اوزاعی رحمہ اللہ (م ۱۵۸ ھ) کے حوالہ سے رفع یدین کی بابت ذکر کیا جاتاہے، جس میں اِمام اوزاعی رحمہ اللہ (م ۱۵۸ ھ) نے اثبات رفع یدین میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیث بمع سند پیش کی تو اِمام صاحب رحمہ اللہ نے اس کے خلاف وہ حدیث ذکر کی جو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی سند سے مروی ہے اور فرمایا کہ اس حدیث کے راوی ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے راویوں سے زیادہ فقیہ ہیں جس پر امام اوزاعی رحمہ اللہ (م ۱۵۸ ھ) لا جواب ہو کر خاموش ہوگئے۔ ۷۶؎