کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 211
قبول حدیث کے سلسلہ میں فقہائے احناف رحمہم اللہ کا ایک درایتی اصول یہ بھی ہے کہ خبر واحد کو اس صورت میں بھی قبول نہ کیا جائے جبکہ صحابہ وتابعین کے زمانہ میں اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا گیا ہو اور خیر القرون کے فقہاء کرام رحمہم اللہ نے پیش آمدہ مسائل میں اسے مدار استدلال نہ بنایا ہو۔۷۲؎
اصول کاتنقیدی جائزہ
مذکورہ اصول پر ہمارا تبصرہ یہ ہے کہ اس قسم کی اشیاء روایات کو پرکھنے خود کیا کسوٹی ہوں گی، ان کی اپنی کسوٹی شریعت و خبر ہے۔ دیکھئے کہ رواج کیسے ثقافت، ماحول اور وقت کے ساتھ بدلتے ہیں ۔ مثلا ً ایک ادارے والوں نے کلاسوں کے ٹائم ٹیبل کاایک رواج اپنے مدرسہ یا سکول میں دے دیا، لیکن چند دن بعد بعض طلباء کے’ خبر‘ دینے سے ادارہ کے نگران کو معلوم ہوا کہ رواج کے برخلاف بعض پیریڈ نہیں لگ رہے۔ اسی طرح حکومت بہت سے قوانین کوملک میں رواج دیتی ہے، لیکن چند دن بعد ’خبر‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ فلاں فلاں کام رائج کردہ نظام کے برخلاف ہورہا ہے۔ چنانچہ واضح ہو اکہ رواج خود توکیا حتمی حیثیت رکھتا ہے، اس کی اپنی اصلاح ’خبر‘ سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر راوی کو روایت پر تفقّہ میں بتقاضۂ بشریت غلطی لگ جائے، تو شریعت اس کی درستگی کا معیار ہے۔
اسی طرح اگر راوی روایت پر عمل اپنے کسی اجتہادی غلطی کے سبب نہیں کررہا، توحدیث و خبر کی وجہ سے اصلاح ہوجائے گی اور پھر وہ اس پر عمل شروع کردے گا۔ جیسے کوفہ میں اور بعض دوسرے شہروں میں تابعین کے زمانہ میں لوگوں نے رکوع سے پہلے اور بعد میں تکبیر بآواز بلند کہنا ترک کردیا تھا۔ پھر یہی صورت حال جاری رہی یہاں تک کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ عراق آئے اور وہاں انہوں نے نماز میں بآواز بلند جھکتے اور اٹھتے وقت تکبیر کہی تو، جیسا کہ صحیحین میں ہے کہ، صحابی رسول عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اس شخص نے ہمیں ہماری وہ نماز یاد دلا دی ہے جسے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ادا کیا کرتے تھے‘‘۔اور فتح الباری میں اِمام احمد رحمہ اللہ سے صحیح سندکے ساتھ منقول ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بھی یہی الفاظ کہے اور یہ اضافہ فرمایا کہ ’’یا تو ہم اسے بھول گئے تھے یا عمداً ترک کربیٹھے۔‘‘ بلکہ ہمارا کہنا تو یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر کسی مترو کہ سنت کو زندہ کرنے سے بڑا ثواب و اجر کا کام کوئی نہیں ہے۔
المختصر خبر ہی وہ اساسیچیزہے جو چیزوں کے افراط وتفریط کو متوازن کرتی ہے۔ چنانچہ ان تمام درایتی معیارات کی اپنی حقیقت تو دیکھئے کہ کہاں ان کے خود کسوٹی ہونے کی بات کی جارہی ہے اور کہاں ان کے لئے بنیادی کسوٹی ’خبر‘ بنتی ہے۔
چندمثالوں سے مذکورہ اصول کی وضاحت
اس اصول کو ذکر کرنے سے مقصود علمائے احناف کا غالبا اشارہ ان روایات کی طرف ہے جن میں رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین کرنے کا ذکر ہے۔ اسی طرح رفع الیدین کی طرح آمین بالجہر سے متعلقہ روایات کو بھی علمائے احناف نے اسی اصول کے تحت ترک کردیا ہے۔
اپنے ہی اصولوں کی مخالفت
٭ علامہ عاصم الحداد رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ یہ حضرات انہی ( یعنی رفع الیدین اور آمین بالجہر) جیسے ان تمام احکام پر عمل چھوڑ کیوں نہیں چھوڑ دیتے، جن میں صحابہ وتابعین کے زمانہ میں بعض جگہوں پر لوگوں نے عمل کرنا چھوڑ دیا تھا۔ حضرت عثمان کے زمانہ میں صحابہ رحمہم اللہ نے نماز میں جھکتے اور اٹھتے وقت ’اللہ اکبر‘