کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 200
جگہ کو ہیں کہ جہاں عام جگہوں کی نسبت بعض مباحات کی اجازت نہ ہو۔ جہاں تک ابو عمیر رضی اللہ عنہ کی روایت کو مشہور قرار دے کر ان کے واقعہ سے دلیل اخذ کرنے کا تعلق ہے تو یہ انتہائی نامعقول سی بات ہے، کیونکہ احکام شریعت کا مکلف وہ مسلمان ہوتا ہے جو عاقل اور بالغ ہو، جبکہ ابو عمیر رضی اللہ عنہ بالکل بچے تھے، جن پر حدود حرم میں عائد کی جانے والی پابندیوں کا قطعا اطلاق نہیں ہوتا ہے اور جب وہ مکلف ہی نہیں تو ان کے اس شغل سے دلیل کیسے اخذ کی جاسکتی ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے مدینہ منورہ کے حرم قرار دیے جانے سے قبل ہی یہ پرندہ پال رکھا ہو اور رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے بعد میں مدینہ منورہ کو حرم قرار دیا ہو، کیونکہ حدیث میں پرندہ کے مرنے پر رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کا ابو عمیر رضی اللہ عنہ کو دلاسا دینے کا ذکر ہے، ناکہ ان کے شکار کو جواز فراہم کرنے کا۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ عین ممکن ہے کہ ابو عمیر رضی اللہ عنہ نے اس پرندے کو حدود حرم کے باہر سے پکڑا ہو اور بعد میں اپنے گھر لا کر اس کی پرورش شروع کردی ہو۔ مزید برآں یہ بھی کیسی عجب بات ہے کہ حدود حرم میں شکار کی ممانعت سے متعلقہ روایات کو پچیس صحابہ روایت کریں تو وہ تب بھی’سنت مشہور‘ کا درجہ حاصل نہ کرے؟جبکہ ابو عمیر رضی اللہ عنہ کی ایک ’غیر مشہور‘ روایت کو صرف اس لیے’ مشہور‘ کہہ دیا جائے کہ اس سے متاخر فقہائے احناف رحمہم اللہ نے مذہب حنفی کو ثابت کیا ہے۔
اپنے ہی اصولوں کی مخالفت
روایت کی تحقیق کے سلسلے میں ’درایت‘ یا ’شدتِ احتیاط‘ کے نام سے جو مختلف اصول علمائے احناف نے پیش کئے ہیں اور پھر ان کی روشنی میں اخبار آحاد کو پرکھا ہے ، ان کی حقیقت علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ ھ)کے ذیل کے قول سے زیادہ کچھ بھی نہیں ۔
٭ اِمام ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ ھ)فرماتے ہیں :
’’ ہمیں بتائیے تو سہی کہ قبول کی جانے ولی یا ناقابل قبول کی جانے والی روایات کے مابین میزان کیا ہے؟ یا تو آپ ان سب احادیث کو قبول کر لیجئے،خواہ وہ قرآن کریم پر اضافہ ہی ہوں یا ان سب کو چھوڑ دیجیے اگر وہ قرآن پر اضافہ ہیں اور عقل وقیاس کے خلاف ہیں ۔ رہی آپ کی یہ من مانی کہ جسے چاہیں قبول کر لیں اور جسے چاہیں چھوڑ دیں ، تو یہ ایک ایسی چیز ہے کہ جس کی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اجازت نہیں دیتے۔‘‘ ۴۷؎
اس کے بعد اِمام ابن القیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ ھ) نے اعلام الموقعین میں اس مسئلے پر سیر حاصل بحث کی ہے اور ان لوگوں کے دلائل کا آپس میں تعارض وتضاد پیش کرکے شبہات کا کافی وشافی جواب دیا ہے۔
3۔ عموم بلوی میں وارد خبر واحد
فقہائے احناف رحمہم اللہ کا ایک اہم درایتی اصول قبول حدیث کے سلسلہ میں یہ بھی ہے کہ خبر واحد کو اس وقت قبول نہیں کیا جائے گا جبکہ اس کا تعلق بلوائے عامہ سے ہو۔ بلوائے عامہ سے ان کی مراد ایسا مشہور واقعہ ہے کہ جو لوگوں کی کثیر تعداد کے سامنے پیش آیا ہو، لیکن لوگوں کی کثیر تعداد اس کو روایت نہ کرے، بلکہ دو ایک افراد کے ذریعے سے وہ واقعہ منقول ہو حالانکہ اتنی بڑی تعداد کے سامنے پیش آنے والا واقعہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اسے لوگوں کا جم غفیر روایت کرے۔
٭ اِمام ابن رشد رحمہ اللہ (م ۵۹۵ ھ) اس اصول کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وأما أبو حنیفۃ فإنہ.... ردَّ أخبار الآحاد التی تعم بہا البلوی إذا لم تنتشر ولا انتشر العمل بہا وذالک أن