کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 199
صحیح احادیث وسنن کا تقدس پامال ہوکررہ جائے گا۔‘‘۴۳؎ خلاصہ یہ ہے کہ د نوں حدیثیں صحیح ہیں ۔ دونوں کے سبب ورود الگ الگ ہیں اور اپنی اپنی جگہوں پر دونوں معمول بہا ہیں ۔دونوں کے قائل ایک ہیں اور دونوں میں کوئی تعارض نہیں ۔ لہٰذا من مانے اصولوں کے ذریعے صحیح احادیث میں تعارض پیدا کرکے انہیں ردکر نا اتباع سنت کے خلاف ہے ۔ ٭ باہم متعارض احادیث کے تعارض کو دفع کرنے کے لئے علوم حدیث میں نہایت آسان قاعدہ بتایا گیا ہے ،جو مندرجہ ذیل ہے : 1۔ اگر توفیق وتطبیق ہونا ممکن ہو، تودونوں میں تطبیق دی جائے۔ 2۔ اگر متقدم ومتاخر ہونے کی تاریخ معلوم ہوجائے، تو متقدم منسوخ اور متاخر ناسخ ہوگی۔ 3۔ اگر تاریخ بھی معلوم نہ ہو، تو علوم حدیث میں مذکور وجوہ ترجیح کی بنیاد پر ایک حدیث کو دوسری پر ترجیح دیتے ہوئے ایک پر عمل کیا جائے گا اور دوسری کو مرجوع قرار دے کر اس پر توقف کیا جائے گا۔ 4۔ اگر ترجیح دینا بھی مشکل ہو ، تو اب اس حدیث کے بارے میں اور کوئی صورت ممکن نہیں ، چنانچہ دونوں احادیث پر تا وقت حل توقف کیا جائے گا۔۴۴؎ یعنی دونوں حدیثوں کو اگر جمع کرنا ممکن ہو تو کسی ایک حدیث کو بھی ردنہیں کیا جائے گا۔ لیکن افسوس کہ’ اہل درایت‘ نے بجائے اس کے کہ دونوں حدیثوں کو جمع کرتے، دونوں کو آپس میں ٹکرانے کا اصول بنایالیا۔ مثال نمبر۳ روایات صحیحہ میں مروی ہے کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کو بھی اسی طرح حرم قرار دیا ہے جس طرح کے مکہ مکرمہ کو اور اس میں شکار کرنے کوبھی ممنوع ٹھہرایا ہے۔۴۵؎ یہ حدیث ان روایات میں سے ہے، جن کی روایت پچیس سے زائد صحابہ رضی اللہ عنہم نے کی ہے۔ اعتراض علماے احناف نے حرم مدینہ کی اس روایت کو ایک حدیث کی بنیاد پر ناقابل عمل قرار دیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے بھائی ابوعمیر رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا: ((یا أبا عمیر ما فعل النغیر)) ۴۶؎ ’’اے ابو عمیر! تمہارے ممولے کو کیا ہوا ہے۔‘‘ اس مشہور روایت سے ان کا وجہ استدلال یہ ہے کہ اگر مدینہ منورہ واقعی حرم ہوتا، تو ابو عمیر رضی اللہ عنہ کے شکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی، لہٰذا اب مدینہ منورہ، مکہ مکرمہ کی طرح معروف معنوں میں نہ تو حرم ہے اور نہ ہی اس میں شکار کی ممانعت! جواب تعجب کی بات یہ ہے کہ علمائے احناف مدینہ منورہ کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیاد پر لغوی اعتبار سے حرم تو تسلیم کرتے ہیں ، لیکن حدود حرم میں شکار کی ممانعت کے قائل نہیں ہیں ، حالانکہ اگر شکار جائزہے تو مدینہ منورہ کے حرم ہونے کا معنی کیا ہے، کیونکہ حرم کہتے ہی اس