کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 197
’’ ہمیں کہنے دیجیے کہ یہ کام (یعنی تخصیص وتقیید) اگر نہیں ہوسکتا تو ان احادیث سے نہیں ہوسکتا، جو ان کے آئمہ سے منقول نہیں ، چاہے وہ(احادیث) محدثین کرام رحمہم اللہ کی معقول اور فطری شرائط کے لحاظ سے صحت کے کتنے ہی بلند مقام پر پہنچی ہوں ‘‘۔ ہمارا تبصرہ اس سلسلہ میں یہ ہے کہ جس روایت کو محض لوگوں کے ہاں شہرت مل جانے کی وجہ سے قطعی الدلالۃ کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے، اس کا کوئی معیار بھی ہونا چاہیے۔ اگر اس کا جواب یہ دیا جائے کہ چونکہ ایسی روایات علمائے احناف کے ہاں ’ مشہور‘ ہیں اوریہی ان کی قبولیت اور قطعیت کا معیار ہے، لہٰذا جو حدیث علمائے احناف کے ہاں شہرت کی حامل ہوگی وہ مقبول قرار پائے گی اور جو حدیث ’شہرت‘ کی اس ترازو پر پورا نہ اترے گی، اس کو خبر آحاد قرار دے کر چھوڑ دیا جائے گا، تو عین ممکن ہے کہ کل کلاں کوئی دوسرا شخص اپنے پسندیدہ مسلک کے ترویج واشاعت کے لیے یہی معیار قائم کرلے کہ جو حدیث ہمارے اِمام کے ہاں مقبول یا مشہور ہے، اس کو ہم مقبول خیال کریں گے اور جن احادیث کی طرف ہمارے ائمہ نے کوئی توجہ مبذول نہیں کی تو ایسی تمام روایات کو ہم بھی در خور اعتنا نہیں سمجھیں گے، تواس طرح سے مجموعہ احادیث ایک ایسا بازیچہ اطفال بن جائے گاجس میں ہر شخص اپنے من پسند مسلک اور مذہب کے استحکام اور دفاع کے لیے احادیث نبویہ کو کھیل تماشا بنا لے گا۔ معاف کیجیے کہ اس طرح ہر شخص اپنے اپنے مختار مذہب کا دفاع تو کر سکتا ہے ، لیکن اگر کوئی مذہب اس لائق نہیں کہ اس کا دفاع کیا جائے یا اس کی بالا دستی تسلیم کروانے کے لیے کوئی تگ و دو کی جائے تو وہ صرف ’مذہب حدیث‘ ہوگا، کیونکہ اس صورتحال میں مقرر کردہ قواعد یا اصول ’حدیث نبویہ‘ کی خدمت کے لیے نہیں ، بلکہ مذاہب آئمہ کی صحت ثابت کرنے اور ’مذہب حدیث‘ پر ان کو فوقیت دینے کے لیے ہوں گے۔ سنت مشہور کے مخالف روایات اور ان کا تجزیہ اس سلسلہ میں فقہائے احناف رحمہم اللہ کی طرف سے جن احادیث اور فقہ ِ امام کے مابین موافقت کی کوشش کی گئی ہے، ان میں سے چند کا تذکرہ بطور مثال ذیل میں کیا جارہا ہے: مثال نمبر۱ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تر کھجور کے عوض میں خشک کھجور کی بیع کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تر کھجور خشک ہونے کے بعد کم ہوجاتی ہے، سائل نے کہا ہاں ، آپ نے فرمایا توپھر یہ بیع جائز نہیں ۔۳۷؎ اعتراض ٭ اِمام سرخسی رحمہ اللہ (م ۴۹۰ ھ) کہتے ہیں : ’’اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ( م ۱۵۰ ھ) نے اس روایت پرعمل نہیں کیا کیونکہ یہ سنت مشہورہ کے خلاف ہے جس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں ہے: ((التمر بالتمر مثلا مثل)) ‘‘ ۳۸؎ ’’کھجور کے بدلے میں کھجور لی جائے تو تعداد ایک جیسی ہونی چاہئے۔ ‘‘ جواب مثال ہذا میں اِمام سرخسی رحمہ اللہ (م ۴۹۰ ھ) معاملہ کے عدم ِفہم کی وجہ سے دو اَحادیث کو آپس میں متعارض سمجھ کر یہ رائے پیش کر