کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 196
مشہور‘ نہیں ، بلکہ اس سے مراد وہ ’سنت مشہورہ‘ ہے جو ان کے آئمہ کرام رحمہم اللہ کے قبول واختیار کی وجہ سے’ مشہور‘ بن گئی ہو،اور اس سے تابعین کے دور تک کے لوگ مراد ہیں ۔۳۴؎
سنت مشہورہ کی تعریف علمائے احناف کے ہاں یہ بھی ہے کہ وہ مطلق طور پرزبان زد عوام ہوجائے، خواہ اس کی سند سرے سے موجود ہی نہ ہو۔۳۵؎
اصول کا تنقیدی جائزہ
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ متاخرین علمائے احناف کے ہاں مندرجہ بالا اصول در اصل حدیث نبوی کے قبول کرنے کی شرط کے طور پرپیش کیا گیا ہے۔ اگر ہم محدثین کرام رحمہم اللہ کے مصطلح الحدیث میں قبول حدیث کے لیے اصول حدیث کا جائزہ لیں یا ان کی اصطلاحات کو پڑھیں تو وہاں ’خبر مشہورہ‘ سے مراد وہ نہیں ، جس کو علمائے احناف ’سنت مشہور‘ کے لفظ سے تعبیر کر رہے ہیں ، حالانکہ دیانت دارانہ بات تو یہ ہے کہ اصول حدیث پر بات کرنے کے لیے اسی فن میں مروجہ اصطلاحات کو ان کے صحیح محل میں استعمال کیا جانا چاہیے، اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ خود علمائے احناف کے ہاں ’سنت مشہورہ‘ کی کوئی ایک متعین تعریف مقرر نہیں کی گئی ہے کہ جس کو خبر آحاد کے قبول ورد کی کسوٹی بنایا جاسکے۔
واضح رہے کہمتاخرین علمائے احناف کی سنت مشہورہ کا تعلق حس و خبر سے نہیں ، جبکہ روایت و حدیث اور اس کے نقد و درایت کا کلی معیار حواس خمسہ سے حاصل ہونے والی خبر پر ہے، چنانچہ سنت مشہور اور تواتر عملی جیسی ابحاث فقہ اور حدیث کے آپس میں اختلاط کے باعث پیدا ہوئی ہیں ۔عرف و تعامل اصول فقہ اور علم فقہ کا موضوع ہیں ، چنانچہ تواتر عملی کے بارے میں یہ کہنا کہ اس سے مراد وہ سنت ہے جسے یوں روایت کیا گیا ہو کہ بغیر کسی اختلاف کے چودھ صدیوں سے لوگوں کے عمل میں رائج چلی آرہی ہو، درست نہیں ہے۔اسی طرح محدثین کرام رحمہم اللہ کے برخلاف متاخرین علمائے احناف نے خبر مشہور کا جو مختلف تصور پیش کیا ہے، وہ بھی درست نہیں کیونکہ احناف کے ہاں ’ مشہور‘ کی تعریف کے ضمن میں اوپر گذر چکا ہے کہ ان کے ہاں ’مشہور‘ کا اطلاق ان روایات پر ہوتا ہے، جو مطلق طور پر لوگوں کی زبانوں پر مشہور ہوگئی ہوں ، چاہے ان کی سرے سے کوئی سند نہ ہو۔ وہ اسے تواتر کی دو قسموں میں سے ایک قسم سمجھتے ہیں ، جس سے ان میں سے بعض کے نزدیک علم یقین حاصل ہوتا ہے اور بعض کے نزدیک علم طمانیت۔ ۳۶؎
خبر مشہور کے بارے میں یہ سب تصورات ناقابل قبول ہیں ، کیونکہ شہرت کا تعلق حس سے نہیں ، چنانچہ یہ ’سنت مشہور‘ صرف علمائے احناف کے نزدیک ہی حجت ہے، محدثین کرام رحمہم اللہ اسے تسلیم نہیں کرتے۔ اس لیے کہ محدثین کے نزدیک’مشہور‘ کوئی اصطلاح نہیں بلکہ یہ صرف فقہ حنفی کی ضرورت ہے، حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کے ہاں ’ شہرت‘ مل جانے کا کوئی احتیاج نہیں ۔
واضح رہے کہ علمائے احناف قرآن کریم کی طرح ’درایت ‘یا ’شدت احتیاط‘ کے نام پر اخبار آحاد سے’ سنت مشہورہ‘ پربھی ہر قسم کے اضافے کو غیرمقبول قرار دیتے ہیں ، کیونکہ ان کے ہاں قرآن کریم کی مثل’سنت مشہورہ‘ کی دلالت بھی قطعی ہوتی ہے۔ علمائے احناف کا یہ رویہ سراسر غیر معقولیت اور عدم انصافپر مبنیہے کہ اگر قرآن یا ’سنت مشہورہ‘ پر کوئی شے بطور تخصیص یا تقیید اضافہ کرسکتی ہے تو وہ صرف ان کی خاص اصطلاح’سنت مشہورہ‘ ہے۔
٭ علامہ عاصم الحداد رحمہ اللہ اس رویہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :