کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 195
’’ بعض دفعہ جج قرعہ اندازی یا قیافہ کی بنیاد پر فیصلہ کرتاہے۔اسی طرح قتل کے مقدمات میں قسامہ کے ذریعے فیصلہ کرتا ہے، کبھی وہ اثاثہ بیت یا اثاثہ دکان کے بارے میں قرینہ حال کی بنا پر فیصلہ کرتا ہے۔ گواہ اور مدعی کی قسم کی بنیاد پر فیصلے کو خلاف قرآن مان لیا جائے تو کیا قرعہ اندازی، قیافہ، قسامت وغیرہ کی بنیاد پر ہونے والے فیصلوں کو بھی خلاف قرآن کہہ کر رد کردیا جائے گا؟ کیونکہ ان کا ذکر بھی قرآن کریم میں نہیں بلکہ سنت رسول میں ہے۔‘‘ ۳۱؎
٭ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ ھ) مزید فرماتے ہیں:
والقضاء بالیمین مع الشاھد لیس یخالف حکم اللّٰہ بل ھو موافق لحکم اللّٰہ إذ فرض اللّٰہ تعالیٰ طاعۃ رسولہ، فعن اللّٰہ سبحانہ قبلت کما قبلت عن رسولہ۳۲؎
’’ایک گواہ اور مدعی کی قسم پر فیصلہ کرنے کا مسئلہ قطعاً قرآن کے خلاف نہیں ہے بلکہ ایک لحاظ سے قرآن کے عین مطابق ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت فرض کردی ہے آپ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی اطاعت کرتے ہیں تو درحقیقت آپ اللہ تعالیٰ کا حکم بجا لاتے ہیں ۔‘‘
اپنے ہی اصولوں کی مخالفت
٭ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ ھ) لکھتے ہیں :
’’ حقیقت یہ ہے کہ اپنے اور اصولوں کی طرح اس اصول کو توڑنے میں بھی یہ لوگ سب سے آگے ہیں کیونکہ انہوں نے نبیذ سے وضو ہونے، وتر کے واجب ہونے، مہر کے دس درہم سے کم نہ ہونے، نماز میں قہقہہ سے نماز اور وضو دونوں کے باطل ہوجانے، نماز جمعہ کے لئے مصر جامع کی شرط ہونے، جس کا اِمام ہو تو اس کے مقتدی کے لئے کفایت ِقراۃ الفاتحہ اور نکاح میں دو گواہوں سے ضروری ہونے سے متعلق اکثر روایات کو قبول کیا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جس حدیث میں نکاح میں دو گواہوں کے ہونے کا ذکر ہے اس میں دو گواہوں ہی کا ذکر نہیں بلکہ ولی اور دو عادل گواہوں کابھی ذکر ہے۔ اس حدیث کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ اس کی رو سے نکاح میں صرف دوگواہ شرط نہیں اور ان کے عادل ہونے کی بھی کوئی شرط نہیں خواہ وہ فاسق ہی ہوں اور ولی کا ہونا بھی شرط نہیں ہے۔ کیونکہ اس سے تو انہوں نے اسی اصول پر پیچھا چھڑا لیا تھا کہ(( لا نکاح الا بولی)) کی روایت قرآن پر اضافہ ہے۔‘‘
٭ علامہ محمد عاصم الحداد رحمہ اللہ اپنی کتاب ’اصول فقہ پر ایک نظر‘ میں لکھتے ہیں :
’’ علاوہ ازیں انہوں نے کچھ اور احادیث کو بھی قبول کیا ہے، جن کے قبول کرنے میں دوسرے بھی ان کے ساتھ شریک ہیں ۔( اور وہ اس لیے کہ یہ محدثین کرام رحمہم اللہ کی شرائط کے مطابق قابل قبول ہیں) جیسے پھوپھی اور بھتیجی یا خالہ اور بھانجی کو بیک وقت نکاح میں رکھنے کی حرمت، موزوں پر مسح کے جواز، دانتوں والے درندوں اور پنجوں والے پرندوں کی حرمت، قاتل کے وارث نہ بن سکنے، رضاعت سے ان تمام رشتوں کا محرم بن جانے، جو خون کی وجہ سے محرم ہیں اور حیضہ عورت کی نماز نہ پڑھنے اور روزہ نہ رکھنے سے متعلق احادیث، حالانکہ یہ تمام احادیث بھی ان کے اصول کی رو سے قرآن کریم پر اضافہ ہیں ۔‘‘۳۳؎
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ ھ)نے اپنی کتاب اعلام الموقعین:۲؍ ۲۶۲ میں اس مضمون سے متعلق فقہائے احناف رحمہم اللہ کے ۵۲ دلائل اور شبہات نقل کرکے ان کاکافی و شافی جواب دیا ہے۔
2۔ سنت مشہورہ کے خلاف روایت
فقہائے حنفیہ رحمہم اللہ کا دوسرا بنیادی درایتی اصول یہ ہے کہ اخبار آحاد اپنے ظاہر ہی سے سنت مشہورہ کے خلاف معلوم ہورہی ہوں تو ان اخبار آحاد پر عمل نہیں کیا جائے گا اورمشہور احادیث کو قبول کیا جائے گا۔ سنت مشہورہ سے ان کی مراد اصول حدیث کی اصطلاح ’خبر