کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 194
رواتہا وأخبارہم إنہا بدعۃ لما جاز الاعتراض بہا علی نص القرآن إذ غیر جائز نسخ القرآن بأخبار الآحاد۲۹؎ ’’یہ روایت اگر ایسی صحیح سندوں سے بھی مروی ہوتی جن کے ساتھ اخبارآحاد قابل قبول ہوتی ہیں اور اس کے راویوں پر سلف نے اعتراض بھی نہ کیا ہوتا اور نہ یہ کہا ہوتا کہ یہ طریقہ بدعت ہے تب بھی اس کو قرآن کریم کی نص کے مقابلے میں پیش کرنا درست نہیں تھا، کیونکہ اخبار آحاد کی بنیاد پر کتاب اللہ کے حکم کی خلاف ورزی جائز نہیں ہے۔ ‘‘ جواب اِمام سرخسی رحمہ اللہ (م ۴۹۰ ھ) مسئلہ ہذا میں قرآنی آیت کا مفہوم متعین نہیں کر پائے اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف قرآن ہونے کا دعویٰ کردیا، حالانکہ آیت ِقرآنی کا خطاب فیصلے کرنے والے ججوں سے نہیں ہے بلکہ ارباب حقوق سے ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آیت کریمہ کی روشنی میں مالی معاملات میں قرض دینے والوں کو اپنے حق کی حفاظت کے لئے دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا لینے کا حکم ہے، اگرچہ بوقت نزاع عدالت میں گواہی دینے کے لئے یہ طریق کار اختیار کیا جاتا ہے لیکن قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی فیصلہ کرنے والے ججوں کو اس بات کا پابند نہیں بنایا کہ وہ ہمیشہ دو گواہوں کی گواہی پرہی فیصلہ کرسکتے ہیں ۔ دیگرعلمائے احناف کی طرح اِمام سرخسی رحمہ اللہ (م ۴۹۰ ھ) کی مشکل بھی دراصل وہ اصول ہے جسے وہ ان لفظوں سے ذکر کرتے ہیں : والزیادۃ علی النص کالنسخ عندنا۳۰؎ ’’حدیث سے قرآن پر زائد حکم داخل کرنا اسے منسوخ کردینے کے مترادف ہے۔‘‘ حالانکہ نسخ کی حقیقت تو یہ ہے کہ نص قرآنی ایک چیز کو ثابت کرے اور حدیث نبوی اس کی نفی کردے یا اس کے برعکس قرآنی نص سے ایک چیز کی نفی ہورہی ہو اور حدیث آکر اسی چیز کااثبات کردے، تو اسے نسخ سے تعبیر کرنا چاہئے لیکن قرآن کریم ایک حکم سے خاموش ہو اور حدیث اسے بیان کرے تو اسے’ نسخ‘ کہنا کسی طور پرقابل فہم نہیں ۔ ٭ اِمام ابن القیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ ھ) نے الطرق الحکمیۃ ص ۶۶،۶۷ پر اس موضوع پربڑی طویل اور نفیس بحث کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں : ومن ذلک أنہ یجوز للحاکم الحکم بشہادۃ الرجل الواحد اذا عرف صدقہ فی غیر الحدود ولم یوجب اللّٰہ علی الحکام ان لایحکموا إلا بشاھدین أصلا و إنما أمر صاحب الحق ان یحفظ حقہ بشاھدین أو بشھاھد وامرأتین وھذا الایدل علی ان الحاکم لا یحکم بأقل من ذلک بل توحکم النبی صلي اللّٰه عليه وسلم بالشاھد والیمین وبالشاھد فقط ’’حدود کے سوا دیگر مقدمات میں ایک معروف سچے گواہ کی گواہی پر جج فیصلہ کرسکتا ہے، اللہ تعالیٰ نے حکام پریہ چیز فرض نہیں کی کہ وہ ہر صورت میں دو گواہوں کی گواہی پر ہی فیصلہ کریں ، اگرچہ اللہ تعالیٰ نے مدعی کے ذمے یہ چیز عائد کی ہے کہ وہ اپنے حق کے ثبوت میں دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کو پیش کرے تاہم اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جج دو گواہوں سے کم کی گواہی پر فیصلہ نہیں کرسکتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گواہ اور اس کے ساتھ مدعی کے حلف یا فقط ایک گواہ کی شہادت پر بھی فیصلہ کیا ہے ‘‘ ٭ وہ مزید فرماتے ہیں :