کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 193
بنتاہے۔ اسی پر اہل قباء کا عمل تھا۔ پانی کے بغیر مس ذکر کو کوئی بھی طہارت سے تعبیر نہیں کرتا اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں لمسِ ذکر کو پانی کے بغیر طہارت کے منافی قرار دے کر اس سے وضوء کا حکم دیا گیاہے، لہٰذا دونوں میں کوئی مناقضہ نہیں ہے تو حدیث رسول قابل عمل ہے۔ اِمام سرخسی رحمہ اللہ (م ۴۹۰ ھ) کے بقول اگر مس ذکر پانی کے بغیر بھی طہارت کا سبب بنتا ہے تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ وضوء کرنے کے بعد اس عمل کوقصداً بار بار کیا جائے، تاکہ طہارت زیادہ بہتر طریقہ سے ہو جائے حالانکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں ، بلکہ استنجاء کی حالت میں شرمگاہ کا چھونا بھی ضرورت کے لئے ہے، اسی لئے استنجاء کرتے ہوئے دایاں ہاتھ استعمال کرنے سے روکا گیا ہے اور استنجاء سے فراغت کے بعد بائیں ہاتھ کو بھی مٹی وغیرہ سے مل کر دھونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے۔ بنا بریں مس ذکر نہیں بلکہ پانی کا استعمال طہارت کا باعث ہے اسی لئے پانی کو قرآن کریم میں طہور کہا گیا ہے۔ مثال نمبر ۲ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ ایسی عورت کا نفقہ خاوند کے ذمہ واجب نہیں جس کو تین طلاقیں دی گئی ہوں ۔۲۵؎ اعتراض ٭ اِمام سرخسی رحمہ اللہ (م ۴۹۰ ھ) فرماتے ہیں : ’’یہ آیت قرآن مجید کی اس آیت کے خلاف ہے: ﴿ اَسْکِنُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ مِنْ وُّجْدِکُمْ﴾ ، جس سے معلوم ہواکہ نفقہ خاوند کے ذمہ ہے، لہٰذا مذکورہ حدیث کو عمل کے لیے قبول نہیں کیا جاسکتا۔‘‘۲۶؎ جواب مذکورہ حدیث کے خلاف قرآن ہونے کادعوی مسئلہ کی حقیقت سے ناواقفیت کی دلیل ہے ، کیونکہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث کا تعلق مطلقہ مبتوتہ سے ہے جس پر خاوند کو رجوع کا اختیار باقی نہیں رہتا اور اس کے لئے واقعی کوئی نفقہ نہیں ہے۔ جبکہ قرآنی آیت کریمہ میں مطلقہ رجعیہ کا ذکر ہے، جس پر خاوند کا حق زوجیت باقی ہوتا ہے۔ اسی لئے ﴿اَسْکِنُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ﴾ سے اسے اپنے ساتھ رکھنے کا حکم دیا گیاہے اور اس کے لئے خاوند کے ذمہ نفقہ سکنی ہے۔ لہٰذا حدیث رسول قرآن کریم کے خلاف نہیں ہے۔ مثال نمبر۳ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مقدمات میں ایک گواہ اور قسم کی بنیاد پر مدعی کے حق میں فیصلہ کردیا۔ ۲۷؎ اعتراض ٭ اِمام سرخسی رحمہ اللہ (م ۴۹۰ ھ) فرماتے ہیں : ’’ روایت کتاب اللہ کے ا س حکم کے منافی ہے:﴿ وَاسْتَشْہِدُوْا شَھِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِکُمْ ﴾ ۲۸؎ ’’اور تم گواہ بناؤ اپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کو‘‘ اس لئے ناقابل قبول ہے۔‘‘ ٭ اِمام ابو بکر جصاص رحمہ اللہ (م ۳۷۰ ھ) کہتے ہیں : إنہا لو وردت من طریق مستقیمۃ تقبل أخبار الآحاد فی مثلہا وعریت من ظہور نکیر السلف علی