کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 192
اس کی مجرمانہ تقریر یا توہین عدالت سے متعلقہ اس کے بیان کو کیسٹ کی حتمی صورت میں پیش کرتی تھی، تو جج کیسٹ کی مکمل ریکارڈنگ کو سن کر فیصلہ یہ کرتا تھا کہ فلاں جملے کا مفہوم ظاہرا تو بڑا ہی سخت ومجرمانہ ہے، لیکن اس سے اگلی وپچھلی کلام کو سن کر یہ متعین ہوجاتا ہے کہ جرم کی کیفیت اتنی سنگین نہیں جتنی کہ پیش کی جارہی ہے۔ گویا شریعت کا کوئی مسئلہ قرآن کی ایک آیت یا صرف ایک حدیث سامنے رکھ کر نکالنا بالکل غلط ہے۔ قرآن وسنت کے باہمی گہرے تعلق کے وجہ سے ہی راجح قول کے مطابق دونوں کا ایک دوسرے سے نسخ مطلقا جائز ہے۔ اس سلسلے میں نہ ہی خبر واحد کا فرق ہے اور نہ ہی خبر متواتر کا۔ اس کی ایک قوی دلیل یہ بھی ہے کہ جو لوگ قباء میں نماز پڑھ رہے تھے فقط آنے والے ایک فرد کی اطلاع سے انہوں نے کعبہ کی طرف اپنا رخ پھیر لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر کوئی نکیر نہیں فرمائی۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کہ جب ایک سنت صحیح سند سے ثابت ہوجائے، تو اپنے سے ثبوت میں قوی تر روایت کے معنی کو اس لئے منسوخ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے کہ معنی کے اعتبار سے وہ بھی ظنی ہی ہے۔ اس سلسلے میں اگر کوئی چیز مانع ہے تو وہ کیا ہے؟ مخالف قرآن روایات اور ان کا تجزیہ اس سلسلہ میں فقہائے احناف رحمہم اللہ کی طرف سے جن احادیث نبویہ اور فقہ ِ امام میں موافقت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ان میں سے چند احادیث کا تذکرہ بطور مثال ذیل میں کیا جارہا ہے: مثال نمبر ۱ جامع ترمذی میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((من مسّ ذکرہ فلا یصل حتی یتوضا)) ۲۲؎ ’’جو آدمی اپنی شرمگاہ کو چھوئے اسے چاہئے کہ وہ وضو کرے‘‘۔ اعتراض ٭ علامہ سرخسی رحمہ اللہ (م ۴۹۰ ھ) فرماتے ہیں: ’’یہ روایت قرآن کے خلاف ہے، کیونکہ قرآن مجید میں مسجد قبا کے نمازیوں کی تعریف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿ فِیْہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ أَنْ یَّتَطَہَّرُوْا﴾ ۲۳؎ ’’اس میں ایسے مرد ہیں جوپسند کرتے ہیں کہ خوب طہارت کریں ۔‘‘ مراد اس آیت سے یہ ہے کہ پانی سے استنجا کریں ، ظاہر ہے کہ پانی سے استنجاء شرمگاہ کو ہاتھ لگائے بغیر نہیں ہوسکتا، چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس عمل کو طہارت حاصل کرنے سے تعبیر کیا ہے ، جبکہ مذکورہ حدیث میں اس کے برخلاف مس ذکر کو نقض طہارت کا سبب قرار دیا گیا ہے، اس لئے یہ حدیث ناقابل عمل ہے۔‘‘۲۴؎ جواب قرآنی آیت اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں عدم فہم کے سبب اِمام سرخسی رحمہ اللہ (م ۴۹۰ ھ) دونوں میں فرق کو نہیں سمجھ سکے اور حدیث کو قرآن کریم کے منافی کہہ کر اسے ناقابل عمل قرار دے دیا، حالانکہ استنجا کی حالت میں مس ذکر پانی کے ساتھ مل کر طہارت کا باعث