کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 191
کسی امر کو شریعت کا درجہ دینے کا منصب بھی عطافرمایا ہے۔ لہٰذا آپ کے کسی بھی حکم کی قرآن اجمالی طور پر تصدیق کرتا ہے۔ ٭ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَمَا اٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا﴾ ۱۷؎ ’’رسول جو تمہیں دیں اسے لے لو اور جس سے روکیں اس سے رک جاؤ۔‘‘ اس آیت کریمہ پر عمل کرتے ہوئے سلف صالحین حدیث وسنت کی تصدیق کیا کرتے تھے۔سلف صالحین میں کسی سے یہ ثابت نہیں کہ انہوں نے کسی صحیح حدیث کے بارے میں کہا ہو کہ’’ چونکہ اس کا حکم قرآن میں موجود نہیں اس لیے وہ قابل عمل نہیں ۔‘‘ ا ن کے دلوں میں نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کا مقام اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اس سے کہیں زیادہ تھی۔۱۸؎ ٭ تعجب کی بات یہ ہے کہ ان میں بعض حضرات اپنے اس اصول پر استدلال ایک ضعیف بلکہ موضوع حدیث سے کرتے ہیں ، جس میں نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کی نسبت سے نقل کیا جاتا ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’تمہیں میری طرف سے اگر کوئی بات پہنچے تو اسے اللہ کی کتاب پیش کرو، اگر وہ اللہ کی کتاب کے مطابق ہو تو وہ میری ہی بات ہوگی اور اگر اس کے مطابق نہ ہو تو میری بات نہ ہوگی۔‘‘ ۱۹؎ اِمام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ ھ) کے ساتھی عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ (م ۱۹۸ ھ) نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ یہ ایک جھوٹی اورمن گھڑت روایت ہے، جسے بعض الحاد پسند لوگوں نے شریعت کا مذاق اڑانے کے لیے وضع کیا تھا۔ مزید برآں اس کا باطل ہونا خود اس کی عبارت سے واضح ہے۔۲۰؎ علمائے احناف چونکہ اس بارے میں منفردہیں کہ وہ ا س کے تمام ظواہر اور عمومات کو قطعی الدلالۃ مانتے ہیں ،اس لئے وہ خبر واحد سے قرآن پر کسی طرح کا اضافہ ماننے کے لئے تیار نہیں ۔ ان کے علاوہ یہ بات کسی دوسرے فقیہ نے نہیں کی۔ ٭ علامہ عاصم الحداد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’یہ بات بذات خود عقل صریح اور دنیا کی ہر زبان کے قواعد کے اعتبارسے متصادم ہے۔‘‘ ۲۱؎ اپنے اس اصول پراعتماد کرتے ہوئے انہوں نے ایسی بہت سی روایات کوچھوڑدیا ہے جو کہ اپنے اِسناد کے اعتبار سے انتہائی پختہ و قطعی اور اپنے مضامین کے اعتبار سے انتہائی واضح و صریح ہیں اور ان میں سے اکثر وہ ہیں جو کہ کتاب اللہ کے بعد روئے زمین پر صحیح ترین کتابوں (بخاری و مسلم) سے منقول ہیں ۔ ٭ جب ایک روایت صحت سند سے ثابت ہو جاتی ہے تو اس کے ذریعے قرآن پر اضافہ کیوں نا ممکن ہے؟ معنی میں تو دونوں روایات یکساں اہمیت کی حامل ہیں اور ثبوت میں بھی قطعی ہیں (یہ اور بات ہے کہ ثبوت میں ایک کی قطعیت دوسرے کی قطعیت سے بڑھ کر ہے)، تو قرآن پر سنت سے اضافہ یا قرآن مجید کی خبر واحد سے تخصیص و تقییدکے جائز نہ ہونے کی کیا دلیل ہے؟ پھر تخصیص و تقیید کیلئے بھی یہ خصوصی اور منفرد شرط عائد کرنا کہ عام وخاص اور مطلق ومقید کا ایک ہی مقام پر آنا ضروری ہے، ورنہ تقیید وتخصیص بھی نسخ کی ایک قسم ہوگی! کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ شر یعت کا تقریبا مکمل حصہ منسوخ ہوچکا ہے اور ضروری تھا کہ قرآن و حدیث کی روایت کی بس ایک سند ہوتی تاکہ ان کا اجتماع ایک موقع پر ہو سکے۔ دنیا کے لحاظ سے بھی یہ اصول سراسر غیر مناسب ہے۔ جس دور میں ہماری عدالتیں کافی حد تک انصاف دینے کی کوشش کرتی تھیں اس دور میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ پولیس مجرم کو