کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 190
دے گا کہ یہ حکم چونکہ قرآن کے حکم پر زائد ہے اس لئے قابل قبول او ر قابل عمل نہیں ۔ ٭ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی صورت حال کے پیش نظر صدیوں قبل فرمادیا تھا: ألا انی أوتیت الکتاب ومثلہ معہ ،ألایوشک رجل شبعان علی أریکتہ یقول: علیکم بہذا القرآن فما وجدتم فیہ من حلال فأحلوہ، وما وجدتم فیہ من حرام فحرموہ۴ ؎ ۱ ’’مجھے قرآن اور قرآن کے ساتھ اس کا مثل دیاگیا ہے۔ ہوشیار رہنا، قریب ہے کہ ایک زمانہ آئے گا کہ ایک آسودہ آدمی اپنے تکیہ پر ٹیک لگا کر تکبر سے کہے گا کہ تم صرف قرآن کی پابندی کرو، جو اس میں حلال ہو اسے حلال سمجھو اور جو اس میں حرام ہے صرف اسے حرام سمجھو۔‘‘ ٭ نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کی دوسری حدیث ہے: ((ترکت فیکم شیئین لن تضلوا بعدہما کتاب اللّٰہ وسنتی ،ولن یتفرقا حتی یردا علی الحوض)) ۱۵؎ ’’میں دو چیزیں تمہارے درمیان چھوڑ کر جا رہا ہوں ۔ ان دونوں پر عمل کرنے کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوگے:کتاب اللہ اور میری سنت! یہ دونوں روز قیامت ایک ساتھ میرے پاس حوض پر آئیں گے۔‘‘ ٭ قرآن کریم کے ساتھ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تین حالتیں ہیں : 1۔ من جملہ وجوہ سنت قرآن کے موافق ہو۔ 2۔ سنت قرآن کی تفسیر وتوضیح ہو۔ 3۔ سنت میں کسی امر کا ایجاب یا اس کی تحریم ہو اور قرآن اس بارے میں خاموش ہو۔ ان تینوں حالات میں سنت قرآن سے متعارض نہیں ہوتی۔ جو حکم سنت میں زیادہ ہے وہ بھی اسی طرح واجب العمل ہے جس طرح کی قرآن کریم کا کوئی حکم واجب العمل ہوتا ہے ۔ ٭ ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہ ﴾ ۱۶ ؎ ’’جس نے روسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘ خبر واحد پر عمل کی شرط یہ ہے کہ وہ کتاب اللہ اور سنت مشہورہ کے خلاف نہ ہو اوران دونوں کے عمومات و ظواہر کے خلاف بھی نہ ہو۔ اس لئے ضروری ہواکہ خبر واحد کو کتاب اللہ اور سنت مشہورہ پر پیش کیا جائے۔ اگر سنت کے ذریعہ کتاب اللہ پر زائد حکم کو رد کیاگیا تو کئی احادیث صحیحہ کا ترک لازم آئے گا۔ جیسے حدیث: ((النہی عن الجمع بین المرأۃ وعمتہا وخالتہا فی النکاح)) ، حدیث:((یحرم من الرضاعۃ ما یحرم من النسب)) اور حدیث کریمہ ((میراث الجدۃ)) وغیرہ، کیونکہ یہ احکام صرف سنت سے ثابت ہیں اور قرآن میں موجود نہیں ۔ ایک طرف تو قرآن اور سنت صحیحہ میں تعارض پیدا کرکے سنت کو ردکیا جاتا ہے، تو دوسری طرف بہت سے مسائل میں مختلف فیہ اور ضعیف احادیث بلکہ قیاس ورائے سے استدلال کیا جاتا ہے۔ اگر سنت ِصحیحہ کے ذریعہ ثابت شدہ حکم سے قر آن کا نسخ ثابت ہوتا ہے، تو قرآن کریم کے مقابلہ میں مختلف فیہ اور ضعیف احادیث سے استدلال کیوں کیا جاتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کو جس طرح قرآن کی تفسیر و توضیح کی اجازت دی ہے وہیں آپ کو ابتدائی طور پر