کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 189
ذیل میں ہم کوشش کرتے ہیں کہ فقہائے احناف رحمہم اللہ کے پیش کردہ اصول درایت کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا اصولی محاکمہ بھی کریں اور ان مثالوں کا جائزہ لیں جو ان کے اصول درایت پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے مردود قرار پائی ہیں ۔
1۔ مخالف قرآن روایات
فقہائے احناف رحمہم اللہ کا اصول یہ ہے کہ جب اخبار آحاد قرآن کریم کے عمومات اور ظواہر کے خلاف پڑتی ہوں تو قرآن کریم کو قبول کیا جائے گا، جبکہ اخبار آحاد ناقابل عمل قرار پائیں گی، کیونکہ قرآن کریم قطعی الثبوت ہے اور اس کے عمومات وظواہر بھی قطعی الدلالۃ ہیں ، جبکہ اس کے برعکس اخبار آحاد ظنی الثبوت اور ظنی الدلالت ہیں ۔ لہٰذا قطعی کو ظنی پر ترجیح دی جائے گی۔
٭ اِمام سرخسی رحمہ اللہ (م ۴۹۰ ھ) اس اصول کی وضاحت میں فرماتے ہیں :
إذا کان الحدیث مخالفا لکتاب اللّٰہ تعالیٰ فإنہ لا یکون مقبولا وحجۃ للعمل بہ عاما کانت الآیۃ أو خاصا نصا أو ظاہرا عندنا علی ما بینا أن تخصیص العام بخبر الواحد لا یجوز ابتداء وکذالک ترک الظاہر فیہ والحمل علی نوع من المجاز لایجوز بخبر الواحد عندنا ۱۲؎
’’ اگر حدیث کتاب اللہ کے خلاف ہو تو ہمارے نزدیک وہ قابل قبول اور عمل کے لیے حجت نہیں ہوسکتی، چاہے آیت عام ہو یا خاص، ظاہر ہو یا نص۔ ہم بتا چکے ہیں کہ کتاب اللہ کے عام حکم کو خبر واحدکی بنا پر خاص کرنا یا اس کے ظاہر ی مفہوم کو خبر واحد کی وجہ سے کسی مجازی معنی پر محمول کرنا جائز نہیں ہے۔‘‘
اصول کا تنقیدی جائزہ
فقہائے اسلام رحمہم اللہ کے اقوال کی روشنی میں کتاب وسنت کو دیکھا جائے تو ان میں اختلاف محسوس ہوتاہے۔ مثال کے طور پر ہم صرف علامہ ابو علی نظام الدین الشاشی رحمہ اللہ کی مشہور کتاب أصول الشاشیپر ایک نظر ڈال لیں تو معلوم ہو جائے گا کہ صحیح احادیث اور فقہ اِمام میں موافقت پیدا کرنے کے لیے کتنی جدوجہد کی گئی ہے۔
٭ علامہ الشاشی رحمہ اللہ مبحث حکم الخاص من الکتاب میں رقمطراز ہیں :
حکم الخاص من الکتاب وجوب العمل بہ لامحالۃ ۳؎ ۱
’’کتاب اللہ کے حکم خاص پر لامحالہ عمل واجب ہے۔اگر کوئی خبرواحد یا قیاس اس کے متعارض ہو، توکتاب پر عمل ہوگا۔‘‘
اس اصل وقاعدہ کے مطالعہ سے تین امور سامنے آئے ہیں :
1۔ قرآن کریم نے سنت میں وار د امر کو واجب قرار نہیں دیاہے۔
2۔ سنت میں وارد امر، جو قرآن میں موجود نہیں ، اگر واجب قرار پایا تو قر آن کا نسخ لازم آئے گا۔
3۔ سنت کے ذریعے قرآن کا نسخ جائز نہیں ۔
ان تینوں مقدمات کے ذریعہ انہوں نے بہت سے مسائل کو ساقط الاعتبار قرار دے دیا ہے، جن کا وجوب صرف سنت سے ثابت ہے۔جیسے قراء ۃ الفاتحۃ اور اعتدال وطمانینت فی الصلوۃ وغیرہ۔
واضح رہے کہ اگر کسی مسئلہ پر قرآن دلالت نہیں کررہا ہے، لیکن سنت کی دلالت موجود ہے تو اس سے قرآن کا نسخ لازم نہیں آئے گا، بلکہ یہ ایک زائد حکم ہوگا جس کی اطاعت ضروری ہے۔ ورنہ سنت ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر حصہ متروک العمل ہوجائے گا،کیونکہ معترض فوراً کہہ