کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 188
إذا صح الحدیث فہو مذہبی ۸؎
’’جب صحیح حدیث کسی مسئلہ میں آجائے تو میری رائے وہی ہے جو حدیث میں ہے۔‘‘
٭ اس سلسلہ میں اِمام صاحب رحمہ اللہ کا بہترین دفاع کرتے ہوئے علامہ عاصم الحداد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ ھ) اور ان کے اصحاب کے زمانہ میں عراق بدعات، خواہشات پر مبنی باطل نظریات اور ساسی وکلامی فرقوں کے مابین سخت کشمکش کی آماجگاہ بنا ہوا تھا اور اس میں جھوٹ زوروں پر تھا۔ حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی احادیث بھی اس سے محفوظ نہ رہی تھیں اور ان احادیث کی چھان پھٹک کرنا، ان کے راویوں کے حالات معلوم کرنا اور ان کی سندوں پر غور و فکر کرکے صحیح احادیث کو ضعیف اور موضوع احادیث سے الگ کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ اس لیے ان حضرات نے اپنا زیادہ تراعتماد قرآن کریم پر رکھاجو قطعی الثبوت تھا اور اس کے ظواہر وعمومات پر انہوں نے کوئی پابندی نہ لگائی۔ اس کے بعد انہوں نے اخبار آحاد کو، جو انہیں ملیں ، قرآن پر پیش کیا۔ اگر انہیں اس کے خلاف نہ پایا تو انہیں قبول کرلیا اور ان پر اپنے مسائل کی بنیاد رکھی، بغیر اس کے کہ وہ ان کی سندوں پر بھی غور کرتے اور ان کے راویوں کے حالات بھی معلوم کرتے۔ یہ کام یقینا انہوں نے احتیاط اور تقوی کے پہلو سے سرانجام دیا۔ مبادا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی طرف کوئی ایسی حدیث منسوب کردیں جو قرآن کریم کے خلاف ہو۔ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے اور ان کی محنتوں کو درجہ قبولیت بخشے کہ وہ ان حالات میں یہی کرسکتے تھے اور یہی انہوں نے کیا۔ وہ معذور تھے اور ان کے اجتہاد کا انہیں یقینا اجر ملے گا۔ اگر صحیح ہوا تو دوہرا اجر اور اگر غلط ہوا تو اکہرا اجر!‘‘ ۹؎
اِمام صاحب اور ان کے تلامذہ رحمہم اللہ کو استخفاف حدیث کے الزام سے بری قرار دیتے ہوئے بعد ازاں علامہ عاصم الحداد رحمہ اللہ نے واضح فرمایا ہے کہ فقہ حنفی سے انتہاء درجہ عقیدت کا پہلو صرف بعض متاخرین علماء میں پایا جاتا ہی۔
٭ اس سلسلہ میں علامہ موصوف رحمہ اللہ مزید رقم طراز ہیں :
’’ ان (اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ ھ) کے جو پیرو کا ر بعد میں آئے (چوتھی اور پانچویں صدی میں) اور انہوں نے ان سے منقول فروعی مسائل سے فقہ کے اصول نکالے، انہوں نے اگرچہ اِمام بخاری اور دوسرے محدثین کی سخت محنت کی بدولت تمام احادیث کوجمع شدہ پایا بلکہ یہ پایا کہ ان کے راویوں کے حالات کتابوں میں درج کردیے گئے تھے اور صحیح احادیث کو ضعیف احادیث سے الگ کرکے بیان کردیا گیا تھا۔ انہوں نے محدثین کی ان کاوشوں کی کوئی قدر نہ کی، بجائے اس کے کہ وہ ان کی روشنی میں اپنے بڑوں کی معذوری میں کی جانے والی کوتاہیوں کی تلافی کرتے، انہوں نے ان سے منقول فروعی مسائل کو نصوص کا درجہ دے دیا اور اپنے بنائے ہوئے اصولوں میں سے اگر کسی چیز ان سے متصادم پایا تو اسے ایسی شکل دے دی کہ وہ ان سے متصادم نہ رہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورتحال میں اگر ان کے بہت سے اصول رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے انتہائی چھان پھٹک کے ساتھ منقول صحیح احادیث کے خلاف پڑیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، لیکن انہوں نے اپنے اس اصول پر اعتماد کرتے ہوئے ایسی بہت سی احادیث پر عمل چھوڑدیا۔‘‘ ۱۰؎
جیسا کہ عاصم حداد رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا ہے عین اس رویہ کی عکاسی کرتے ہوئے ان سے کئی صدیاں قبل گذر جانے والے معروف عالم دین علامہ کرخی رحمہ اللہ (م ۳۴۰ ھ) مذہب حنفی کی صحت کا یقین کامل رکھتے ہوئے تحقیق حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عمومی درایتی اصول یوں لکھتے ہیں:
کل ایۃ أوحدیث یخالف ماعلیہ أصحابنا فھو مؤول أو منسوخ ۱۱؎
’’ قرآن کریم کی جو آیت کریمہ یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حدیث ہمارے حنفی حضرات کی رائے کے خلاف ہوگی اسے منسوخ سمجھا جائے گا یا اس کی تاویل کی جائے گی۔(تاکہ وہ مفہوم کے اعتبار سے حنفی مذہب کے موافق ہوجائے)‘‘