کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 187
فقہاے احناف رحمہم اللہ کے درایتی اصول اور ان کا تنقیدی جائزہ تاریخ اسلامی سے واقف حضرات جانتے ہیں کہ امت مسلمہ میں ابتداء ہی سے مختلف اذواق کے مطابق بالعموم صحابہ رضی اللہ عنہم اور بالخصوص تابعین کرام رحمہم اللہ میں سے بعض کی زیادہ توجہ علم حدیث اور بعض کی علم فقہ کی طرف رہی۔ ذوق وفہم کے اس اختلاف کی وجہ سے ہر صاحب علم نے حدیث وفقہ میں سے کسی خاص میدان کی طرف اپنا رجحان ظاہر کیا اور اپنی تمام تر خداد صلاحیتوں کے ساتھ اپنی پوری توجہ اسی جانب مبذول کردی۔ ابتدا میں عہد نبوی کے قریب تر ہونے کی وجہ سے ذوق وفہم کا یہ اختلاف دبا رہا، لیکن بُعد زمانہ اور مرور ِایام کی وجہ سے لوگوں کے ایمان میں کمی آنا شروع ہوگئی۔ حدیث وفقہ کے ماہرین اساتذہ کے اصحاب او رتلامذہ کے مابین اس فطری اختلاف نے پہلی دفعہ تابعین کرام رحمہم اللہ کے دور میں باقاعدہ دو متوازی مکتبہ ہائے فکر کی شکل اختیار کرلی، جنہیں ان کے ذوق ہائے فکر کے اعتبار سے ’اہل الحدیث‘ اور’ اہل الرائے‘ کے ناموں سے موسوم کیا جانے لگا، لیکن واضح رہے کہ اس وقت یہ اسماء محض ’اہل حدیث (محدثین کرام رحمہم اللہ)‘ اور ’اہل فقہ(فقہاء عظام رحمہم اللہ )‘ کے لغوی معنی میں موجود تھے۔ ان کی نوعیت بعدکے زمانوں میں باقاعدہ اس طرح دو متحارب گروپوں کی نہ تھی جس کا عملی نمونہ آج بھی اُمت میں نظر آرہا ہے۔ مزید برآں ابتداء میں یہ دونوں گروہ ہی فقہ وحدیث کے جامع لوگوں کے تھے او ر ان میں سے کوئی گروہ بھی کسی علم کی اہمیت کا انکاری نہ تھا۔ متاخرین فقہائے اہل الرائے رحمہم اللہ کی یہ نظر کہ اسلاف کی تشریحات ِدین کی اہمیت دین میں انتہائی خصوصیہے، سییہ رویہ سامنے آیا کہ ’اہل الرائے‘ نے اسلاف امتکے اقوال کو فہم دین میں وہ حیثیت دی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں دین کے فہم میں ما بعد زمانہ کے علماء کے بالمقابل متقدمین کا فہم دین ہر حال میں قابل ترجیح ہے۔ چنانچہ متاخرین کے بالمقابل اسلاف کے فہم دین کے تحفظ کی خاطر استدلال من الحدیث کے سلسلہ میں فقہائے اہل الرائے (علمائے احناف رحمہم اللہ ) کے ہاں حد درجہ یہ کوشش کی جانے لگی کہ احادیث اور فہم اسلاف کے مابین نظر آنے والے اختلاف کو ایسی شکل دی جائے کہ مطابقت کی صورت پیدا ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فقہ ِآئمہ کے بظاہر خلاف نظر آنے والی اَحادیث،بلکہ قرآنی آیات کی بھی عملاتاویل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، جس سے شعوری یا لاشعوری طور پر قبولیت ِحدیث میں ان کے ہاں محدثین کرام رحمہم اللہ کے بالمقابل زیادہحساسیت کا رویہ نظر آتا ہے۔ قبولیت ِحدیث کے باب میں محدثین کرام رحمہم اللہ کی طرف سے پیش کردہ اُصول خمسہ کے اوپر فقہائے اَحناف رحمہم اللہ کی طرف سے پیش کردہ مزید درایتی اصولوں کے اضافہ کے پیش نظر بس یہی چیز ہے جسے مثبت تناظرمیں بیان کیا گیا۔ اجتہادات ِسلف کی سا لمیت کے ضمن میں متاخرین علمائے احنافکے بارے میں بعض مکاتب فکر کا یہ خیال کہ علمائے احناف کے ہاں قبولیت ِحدیث کی شرائط کو دیکھ کر استخفاف ِحدیث کا گمان ہوتا ہے، صحیح نہیں ۔ ہمارے خیال کے مطابق اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ ھ) اور ان کے مخلص تلامذہ کا قطعا یہ مقصد نہیں تھا کہ قبولیت حدیث کے سلسلہ میں ایسے اصول وضع کیے جائیں جن سے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا استخفاف ہوتا ہو یا ان مقرر کردہ اصولوں کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ترجیح دی جائے۔ یہ ہمارا ان کے بارے میں حسن ظن ہے، کیونکہ اِمام صاحب رحمہ اللہ نے اپنے ایک معروف مقولہ میں خود اس غلط بنیاد کی بیخ کنی فرما دی ہے۔ ٭ اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ ھ) فرماتے ہیں: