کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 185
4۔ جن اخبار آحاد سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے استدلال نہیں فرمایا، تو انہیں بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔
5۔ جب اخبار آحاد کا راوی غیر فقیہ ہو، تو انہیں قبول نہیں کیا جائے گا۔
6۔ جب اخبار آحاد کا تعلق بلوائے عامہ سے ہو اور اس کو نقل آحاد کریں ، تو انہیں قبول نہیں کیا جائے گا۔
7۔ جب اخبار آحاد پر خیر القرون کے دور میں عمل نہ ہوا ہو، تو انہیں قبول نہیں کیا جائے گا۔
8۔ جب اخبار آحاد مسلمات کے خلاف ہوں ، تو انہیں قبول نہیں کیا جائے گا۔
٭ فقہائے مالکیہ رحمہم اللہ کے ہاں بھی درایتی نقد کا استعمال نمایاں طور پر ملتا ہے۔ اس سلسلہ میں اہل علم نے ان کی طرف سے پیش کیے گئے اصولوں کو ذکر فرمایا ہے۔
٭ اِمام شاطبی رحمہ اللہ (م ۷۹۰ ھ) اس ضمن میں رقم طراز ہیں :
ہذا القسم علی ضربین: أحدہما أن تکون مخالفتہ لأصل قطعیۃ فلا بد من ردہ۔ والآخر أن تکون ظنیۃ إما بأن یتطرق الظن من جہۃ الدلیل الظنّی وإما من جہۃ کون الأصل لم یتحقق کونہ قطعیا وفی ہذا الموضع مجال للمجتہدین، ولکن الثابت فی الجملۃ أن مخالفۃ الظنی لأصل قطعی یسقط إعتبار الظنی علی الإطلاق وہو مما لا یختلف فیہ ۵؎
’’ظنی دلیل اگر قطعی دلیل کے مخالف ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں:ایک یہ کہ اس کا اصل کے مخالف ہونا قطعی ہو، اس صورت میں اس کو رد کردینا لازم ہے۔ دوسری یہ کہ اس کا اصل کے خلاف ہونا ظنی ہو، یا تو اس لیے کہ اصل کے ساتھ اس کی مخالفت ظنی ہے اور یا اس لیے کہ اصل کا قطعی ہونا متحقق نہیں ہوا۔ اس دوسری صورت میں مجتہدین کے لیے اختلاف کی گنجائش ہے، لیکن اصولی طور پر یہ بات طے شدہ ہے کہ ظنی کا قطعی کے مخالف ہونا ظنی کو ساقط الاعتبار کردیتا ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ۔‘‘
٭ اِمام ابن عبد البر رحمہ اللہ (م ۴۶۳ ھ)عمل اہل مدینہ کے حوالے سے لکھتے ہیں :
فجملۃ مذہب مالک فی ذلک إیجاب العمل بمسندہ ومرسلہ مالم یعترضہ العمل بظاہر بلدہ ۶؎
’’اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ ھ) کے مذہب کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ مسند یا مرسل خبر واحد پر عمل کرتے ہیں ، بشرطیکہ وہ عمل اہل مدینہ کے خلاف نہ ہو۔‘‘
٭ اس کی دلیل بیان کرتے ہوئے ابن رشد الجدّ رحمہ اللہ (م ۵۲۰ ھ) لکھتے ہیں :
إن العمل أقوی عندہ من خبر الواحد لأن العمل المتصل بالمدینۃ لا یکون إلا أن توقیف فہو یجری مجری ما نقل نقل التواتر من الأخبار فیقدم علی خبر الواحد ۷؎
’’اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ ھ) کے نزدیک اہل مدینہ کا عمل خبر واحد کے مقابلے میں زیادہ قوی ہے، کیونکہ اس شہر میں جاری ہونے والا عمل بہرحال رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے احکام کے خلاف نہیں ہوسکتا، پس یہ متواتر روایت کے قائم مقام ہے اور اسے خبر واحد پر ترجیح حاصل ہے۔‘‘
المختصر اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ ھ) کا اصول یہ ہے کہ اگر کوئی روایت ظاہر قرآن، عمل اہل مدینہ اور قیاس قوی کے معارض ہو تو اس پر عمل نہیں کرتے۔ اس اصول پر انہوں نے متعدد روایات کو قبول نہیں کیا۔
ذیل میں فقہائے حنفیہ رحمہم اللہ و مالکیہ رحمہم اللہ کی طرف سے پیش کردہ فقہی درایتی اصولو ں کی تفصیلی وضاحت پیش کی جارہی ہے، جن سے مذکورہ اصولوں کی حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی کہ کسی صحیح روایت کو پرکھنے کے لیے ان درایتی اصولوں میں کتنا وزن ہے۔