کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 184
’’ دوسری دلیل کے ساتھ تعارض کے اعتبار سے روایت کے منقطع ہونے کی چار صورتیں ہیں:یا تو روایت کتاب اللہ کے خلاف یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور سنت کے خلاف ہو، یا علوم بلوی میں کوئی شاذ اور غیر مشہور حدیث وارد ہو، جبکہ اس کی معرفت ہر خاص وعام کو ہونی چاہیے۔ یا کوئی ایسی حدیث ہو جس سے صدر اول کے ائمہ نے اعراض کیا ہو ، یعنی ان کے مابین اس مسئلہ کے بارے میں بحث ہوئی ہو، لیکن اس حدیث سے انہوں نے استدلال نہ کیا ہو۔‘‘ ٭ اِمام سرخسی رحمہ اللہ (م ۴۹۰ ھ)ایک اور مقام پر لکھتے ہیں : إذا انسد باب الرأی فی ما روی وتحققت الضرورۃ بکونہ مخالفا للقیاس الصحیح فلا بد من ترکہ ۳؎ ’’جب کسی روایت کے ماننے سے رائے کاباب بالکل بند ہوتا ہو اور ہر پہلو سے بالکل واضح ہوجائے کہ وہ قیاس صحیح کے مخالف ہے تو اسے چھوڑنا لازم ہے۔‘‘ احناف کے اصول درایت کا سب سے بڑا اصول یہ ہے کہ جب کسی حدیث کا راوی غیر فقیہ ہو اور اس کی روایت قیاس صحیح کے مخالف ہو، تو ایسی صورت میں قیاس کو روایت پر ترجیح دی جائے گی۔ ٭ اِمام سرخسی رحمہ اللہ (م ۴۹۰ ھ) اس ضمن میں مزید رقم طراز ہیں : نقل الخبر بالمعنی کان مستفیضا فیہم والوقوف علی کل معنی أرادہ رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم بکلامہ أمر عظیم فقد أوتی جوامع الکلم علی ما قال: أوتیت جوامع الکلم واختصر لی اختصارا ومعلوم أن الناقل بالمعنی لا ینقل إلا بقدر ما فہمہ من العبارۃ وعند قصور فہم السامع ربما یذہب إلیہ بعض المراد وہذا القصور لا یشکل عند المقابلہ بما ہو فقہ لفظ رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم فلتوہم ہذا القصور قلنا إذا انسد باب الرأی فی ما روی وتحققت الضرورۃ بکونہ مخالفا للقیاس الصحیح فلا بد من ترکہ لأن کون القیاس الصحیح حجۃ ثابت بالکتاب والسنۃ والإجماع فما خالف القیاس الصحیح من کل وجہ فہو فی المعنی مخالف للکتاب والسنۃ المشہورۃ والإجماع ۴؎ ’’بالمعنی روایت کا طریقہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں عام تھا اور رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی کلام کے تمام تر اسرار کو سمجھنا بہرحال کوئی آسان کام نہیں ہے، کیونکہ آپ کو ، خود آپ کے ارشاد کے مطابق، جوامع الکلم عطا کیے گئے تھے۔ اب یہ معلوم ہے کہ بالمعنی روایت کرنے والا اپنے فہم کے مطابق یہ روایت کرے گا اور اگر وہ صحیح طریقے سے بات کو نہیں سمجھ سکا تو متکلم کا منشا اس سے اوجھل رہ جائے گا۔ ظاہر ہے کہ ناقل سوئے فہم سے جو بات کہے گا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے درست فہم سے بہت مختلف ہوگی۔ اس بنا پر ہم کہتے ہیں کہ جب کسی روایت کے ماننے سے رائے کا باب بالکل بند ہوتا ہو اور ہر پہلو سے واضح ہوجائے کہ وہ قیاس صحیح کے مخالف ہے تو اس کو چھوڑنا لازم ہے، کیونکہ قیاس صحیح کا حجت ہونا کتاب وسنت اور اجماع سے ثابت ہے۔ تو جو بات ہر پہلو سے قیاس صحیح کے خلاف ہوگی، وہ دراصل کتاب وسنت اور اجماع کے خلاف ہوگی۔‘‘ ہم چاہتے ہیں کہ اس باب میں فقہائے احناف رحمہم اللہ مذکورہ اصولوں کا جائزہ پیش کریں اس سلسلہ میں ان کے نمایاں درایتی اصولوں کا جائزہ پیش کیا جائے گا: 1۔ جب اخبار آحاد قرآن کریم کے خلا ف ہوں ، تو انہیں قبول نہیں کیا جائے گا۔ 2۔ جب اخبار آحاد سنت مشہورہ کے خلاف ہوں ، تو انہیں قبول نہیں کیا جائے گا۔ 3۔ جب کسی روایت کے راوی کا فتوی و عمل، اپنی ہی روایت کے خلاف ہو، تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔