کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 183
اسلام میں کتاب وسنت قطعی دلائل ہیں ،جب تعصب بڑھا تو ائمہ کے اقوال و فتاوی کو بھی قطعی مان لیا گیا۔ متاخر اُصولیوں نے جہاں کتاب وسنت کو اصل بنایا، وہیں اقوال وفتاوی کے تقدس کو بھی پامال ہونے سے بچانے کی کوشش کی، اس طرح اصول تو وضع کرلئے گئے لیکن جگہ جگہ کمزوریاں رہ گئیں ، جن کے واضح اثرات آج تک کتاب وسنت پر براہ راست پڑرہے ہیں ۔
٭ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ (م ۱۱۷۶ ھ) نے اپنی شہرہ آفاق کتاب حجۃ اﷲ البالغۃ میں ان اصولوں کا غیر جانبدارنہ اور محققانہ جائزہ لیا ہے جو قابل مطالعہ ہے۔
عقل سلیم کبھی نقل صحیح کے خلاف نہیں ہوا کرتی، لیکن فقہ وحدیث کی کشمکش نے ’درایت‘ کے نام پر اختلاف کے بے شمار شاخسانے کھڑے کر دیے ہیں ۔ چنانچہ ہماری علمی روایت میں حدیث کے نقد درایت کی بحث خاص طور پر ان روایات کے بارے میں پیدا ہوئی جو فقہی احکام کا ماخذ بن سکتی ہیں ۔ اس ضمن میں اہل علم کے ہاں معرکۃ الارا بحثیں موجود ہیں ۔
٭ شوافع اور حنابلہ کے عام مسلک کے مطابق کسی حدیث کو ماخذ حکم بنانے او ر اس پر عمل کرنے کے لیے محض اس کا فن حدیث میں خبر مقبول کے لیے طے شدہ پانچ شرائط کی رو سے صحیح ہونا کافی ہے اور دیگر درایتی اصولوں یعنی قرآن، سنت، قیاس وغیرہ پر اسے پرکھنے کی ضرورت نہیں ۔
٭ ابن السمعانی رحمہ اللہ (م ۴۷۹ ھ) شوافع اور حنابلہ کے موقف کی موافقت میں لکھتے ہیں :
متی تصدر الخبر صار أصلا من الأصول ولا یحتاج إلی عرضہ علی أصل آخر لأنہ إن وافقہ فذاک وإن خالفہ فلا یجوز رد أحدہما لأنہ رد للخبر بالقیاس وہو مردود باتفاق فإن السنۃ مقدمۃ علی القیاس بلا خوف۱؎
’’روایت جب فن حدیث کی رو سے ثابت ہوجائے تووہ بذات خود ایک اصل بن جاتی ہے ا ور اسے دیگر درایتی نقد کے اصولوں پر پرکھنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی کیونکہ اگر روایت کسی دوسرے اصول کے موافق ہو تو درست اور اگر مخالف ہو تو اس کی بنا پر روایت کو چھوڑدینا جائز نہیں ، اس لیے کہ یہ تو قیاس کے مقابلے میں حدیث کو چھوڑنا ہے جوکہ بالاتفاق درست نہیں ، کیونکہ سنت بہرحال قیاس پر مقدم ہے۔‘‘
دوسری طرف فقہائے احناف رحمہم اللہ اور فقہائے مالکیہ رحمہم اللہ ہیں ، جن کے نزدیک فن حدیث کی رو سے ایک روایت ثابت ہوچکنے کے بعد بھی ظنی اور احتمالی ہی رہتی ہے۔چنانچہ ان کے ہاں ’تحقیق مزید‘ اور شدت احتیاط کی خاطر تحقیق روایت میں درایتی نقد کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے اور اس حوالے سے ان کے ہاں مفصل بحثیں ملتی ہیں ۔
حنابلہ اور شوافع کے بالمقابل فقہائے اَحناف رحمہم اللہ اور فقہائے شوافع رحمہم اللہ ہیں ۔
٭ عام فقہاء کے بالمقابل فقہائے حنفیہ رحمہم اللہ کے ہاں روایت کی تحقیق میں درایتی نقد کو خاص اہمیت حاصل ہے اور اس سلسلہ میں انہوں نے نہایت اہتمام سے اصول وضع کیے ہیں ۔
٭ اِمام سرخسی رحمہ اللہ (م ۴۹۰ ھ) ان اُصولوں کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
فأما القسم الأول فہو ثبوت الانقطاع بدلیل معارض فعلی أربعۃ أوجہ: إما أن یکون مخالفا لکتاب اللّٰہ تعالیٰ أو السنۃ المشہورۃ عن رسول اللّٰہ أو یکون حدیثا شاذا لم یشتہر فیما تعم بہ البلوی ویحتاج الخاص والعام إلی معرفتہ أو یکون حدیثا قد أعرض عنہ الأئمۃ من الصدر الأول بأن ظہر منہم الاختلاف فی تلک الحادثۃ ولم تجر بینہم المحاجۃ بذلک الحدیث۲؎