کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 182
تمہید مسلمان ہونے کے ناطے سے ہر انسان کے عقیدے میں یہ بات لازم ہے کہ وہ شریعت یعنی قرآن وسنت کی اتباع کرے اور جب کوئی حکم رب ذو الجلال سے اسے مل جائے تو اسے ہر چیز پر مقدم جانے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو فہم شریعت کے لئے اور پھر اس پر عمل کرنے کے لئے عقل جیسی دولت سے نوازا ہے ، لیکن یہ نعمت اس لئے نہیں عطا کی گئی کہ انسان اس کے ذریعے احکامات ِالہیہ کا رد شروع کر دے۔ عقل کی مثال آنکھ کی سی ہے اور وحی الٰہی سورج کی مثل ہے، آنکھ کے لئے ضروری ہے کہ وہ سورج کے تابع رہ کر اس کی روشنی سے فائدہ اٹھائے، لیکن اس کے لئے یہ گنجائش نہیں ہے کہ وہ نظامِ شمسی کے کسی جزء پراعتراض اٹھائے اور اس میں کیڑے نکالنے کی کوشش کرے، ورنہ قصور آنکھ کا ہوگا نہ کہ نظام شمسی کا،کیونکہ آنکھ اگر نظامِ شمسی کے بعض اجزا کا اِدراک کرسکتی ہے تو اس کے اکثر اجزا کی حقیقت معلوم کرلینا اس کے بس کا روگ نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح عقل کا کام بھی یہ ہے کہ وہ وحی الٰہی(قرآن و حدیث) کے تابع رہ کر ا س کی ضیا پاشیوں سے مستفید ہو۔ وحی کے ذکر کردہ اَحکام کی حکمتوں کو معلوم کرنے کا اختیار بھی اسے حاصل ہے، لیکن عقل کو وحی پر حکمران بننے یا وحی کے بعض اجزا کا انکار کرنے کی اجازت اسے نہیں دی گئی۔ لہٰذا انکارِحدیث کی صورت میں بھی قصور عقل کا ہوتا ہے، وحی کا نہیں ۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ شریعت ِاسلامیہ میں عقل فہم شریعت میں توانسان کے لئے حجت ہے،لیکن شریعت سازی یا انکار شریعت میں یہ حجت نہیں ۔ چنانچہ عقل سے استفادہ کرنے سے تومجالِ انکار نہیں ، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے جس سے انسان اور حیوان میں فرق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب ہے ہی عقل والوں کے لئے،بے عقل یا مجنون اس کااہل نہیں ہے۔ اہل عقل ہی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور علماے حدیث نے بھی روایت ِحدیث میں اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے، لیکن اسے اپنے مقام سے آگے نہیں بڑھنے دیا اور اسے کسوٹی مان کر اس پر کلامِ نبوت کو پیش کرنے کی جسارت نہیں کی، ہاں عقل کو اس کا حق ضرور دیا ہے اور ہر حدیث کو خوب چھان پھٹک کر قبول کیا ہے۔ اس سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ عقل، حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر حاکم نہیں ہے اور نہ ہی اسے قرآن و حدیث کی طرح شرعی حجت تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخالفت ِعقل یا مخالفت ِقیاس وغیرہ دعوے سے ردّ کرنا ہی خلافِ عقل ہے اور جو لوگ اس اُصول کو صحیح مانتے ہیں ، ان کے اس طرز عمل کو دلیل بناتے ہوئے بعد میں آنے والے فتنہ گروں نے انکار ِحدیث کے دروازے کھول لیے ہیں ۔ اوّلین یہ لوگ اس قسم کے اصولوں کو حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر آزما رہے ہیں اور اپنی عقل کے خلاف آنے والی ہر حدیث کو ردّ کر رہے ہیں اور اس کے بعد یہی لوگ یا ان کے ہونے والے جانشین ایسے ’اُصول‘ قرآنی آیات پرمنطبق کریں گے اور کتابِ الٰہی کا بھی وہی حشر کریں گے جوکلامِ نبوی کا کر رہے ہیں ۔ نہایت واضح رہنا چاہے کہ علم حدیث اور علم فقہ کا ایک دوسرے سے چولی دامن کا ساتھ ہے اور ان دونوں علوم کے درمیان کوئی منافاۃ نہیں ۔چنانچہ اگر فقہ، حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے آزاد ہوجائے تو دلیل سے عاری ہوجائے گی، اسی طرح بسااوقات ظاہر روایت پر عمل شارح کے مقصود کے خلاف ہوجاتا ہے۔