کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 18
کرام رحمہم اللہ کا ایک قول یہ ہے کہ یہ حدیث کا مترادف ہے اور اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کی طرف منسوب اُمور ہیں ۔ اور ایک قول یہ ہے کہ یہ لفظ حدیث کے مغایر ہے اور اس سے مراد صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین رحمہم اللہ کی طرف منسوب اقوال وافعال ہیں ۔۱۱۵؎
٭ ڈاکٹر نور الدین عتر حفظہ اللہ رقمطراز ہیں :
وأما الأثر فقد خصہ فقہاء خراسان بالموقوف اصطلاحا ومنھم جماعۃ خصوا المرفوع الخبر۱۱۶؎
’’اثر کو فقہائے عظام خراسان نے اصطلاحاً موقوف کے ساتھ اور ان میں سے ایک جماعت نے خبر کو مرفوع کے ساتھ خاص کیا ہے ۔ ‘‘
غالباً یہی باعث ہے کہ امام محمد بن حسن الشیبانی رحمہ اللہ (م۱۸۹ھ)نے اپنی موقوف روایات پرمشتمل کتاب کا نام الآثاررکھا ہے۔ تاہم لفظ اثر کو محدثین کرام رحمہم اللہ نے حدیث کے معنی میں بھی استعمال کیا ہے ۔ اسی وجہ سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م۸۵۲ھ)نے اپنی اصولِ حدیث پر مشتمل کتاب کا نام نخبۃ الفکر فی مصطلح أھل الأثر رکھا ہے ، جس کا معنی ہے ’’ فن اصولِ حدیث کے سلسلہ میں چنیدہ افکارو نظریات ‘‘ ۔۱۱۷؎
٭ امام مسلم رحمہ اللہ (م ۲۶۱ ھ) نے نقل فرمایا ہے:
وھو الأثر المشہور عن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم :من حدث عنی بحدیث یری أنہ کذب فھو أحد الکاذبین۱۱۸؎
’’رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے یہ اثر (یعنی حدیث) معروف ہے کہ جس نے میرے بارے میں کوئی حدیث بیان کی اور وہ جانتا ہو کہ وہ جھوٹ ہے تو وہ بھی جھوٹوں میں سے ایک ہے ۔ ‘‘
٭ علامہ جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ (م ۱۳۳۲ ھ)نے فرمایا ہے:
الأثر ما روی عن الصحابۃ ویجوز اطلاقہ علی کلام النبی صلي اللّٰه عليه وسلم أیضا ۱۱۹؎
’’اثر اسے کہتے ہیں جو صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہو ، نیز اس کا اطلاق نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کے کلام پر بھی درست ہے ۔ ‘‘
٭ امام طاہر بن صالح الجزائری رحمہ اللہ (م ۱۳۳۸ ھ) رقمطراز ہیں:
أما الاثر فانہ مرادف للخبر یطلق علی المرفوع والموقوف ۱۲۰؎
’’لفظ ِاثر خبر کے مترادف ہے ، اس کا اطلاق مرفوع پر بھی ہوتا ہے اور موقوف پربھی ۔ ‘‘
٭ مولانا عبد الحیٔ لکھنوی رحمہ اللہ (م ۱۳۰۴ ھ) فرماتے ہیں :
الأثر ھو المروی عن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم أو عن صحابی أو عن تابعی مطلقا،وبالجملۃ مرفوعا کان أو موقوفا وعلیہ جمہور المحدثین من السلف والخلف۱۲۱؎
’’مطلقاً اثر اس روایت کو کہتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے یا صحابی سے یا تابعی سے مروی ہو ، بالفاظ ِدیگر مرفوع ہو یا موقوف (اثر کے مفہوم میں شامل ہے ، سلف وخلف کے جمہور محدثین کرام رحمہم اللہ کا یہی موقف ہے ۔ ‘‘
جیسا کہ گذر چکا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے جو مسائل منقول ہیں انہیں بھی آثار کہا جاتاہے اور آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے ارشادات پر بھی ’اثر‘ کا لفظ بو لا جاتاہے۔ اس ضمن میں علمائے محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں کچھ فرق کیا جاتا ہے۔ چنانچہ
٭ مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ عموماً لفظ ’اثر‘ کا استعمال اضافت سے ہوتاہے ۔ جب آثار الرسول کہا جائے تو یہ حدیث وسنت کے مترادف ہو گا اور’ اثر‘ مطلقا بولا جائے تو آثار صحابہ رضی اللہ عنہم یا اس کا لغوی مفہوم مراد ہوگا۔‘‘ ۱۲۲؎