کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 151
ہوتی ہے مگر وہ’ علت‘ ان پر مخفی ہوتی ہے تو وہ حدیث معلول ہو جاتی ہے ۔ ‘‘
٭ اِمام ابن صلاح رحمہ اللہ (م ۶۴۳ ھ)معلول حدیث کی تعریف یوں فرماتے ہیں :
ہو الحدیث الذی اطلع فیہ علۃ تقدح فی صحتہ مع أن الظاہر السلامۃ منہا ۸۱؎
’’وہ حدیث جس میں کسی علت (اشکال) کی وجہ سے اس کی صحت مجروح ہوجائے، حالانکہ ظاہر میں کوئی خرابی معلوم نہ ہو۔‘‘
اگر علت متن روایت میں ہو، تو اس کی دو صورتیں ہیں :
1۔ علت صرف متن میں ہو تو اسے معلّل المتن کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے:
عن عبد اللّٰہ بن مسعود قال قال رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم:(( الطیرۃ من الشرک وما منا الا،ولکن اللّٰہ یذھبہ بالتوکل)) ۸۲؎
’’یعنی بدشگونی پکڑنا شرک ہے اور ہم میں سے کوئی مگر ، لیکن اللہ تعالیٰ اسے توکل کے ذریعے دور فرما دیتے ہیں ۔ ‘‘
اس روایت کے متن میں ایک خفیہ علت ہے، جس کی وجہ سے یہ روایت معلول ہے ۔ علت متن کے ان الفاظ وما منا الا میں ہے۔ اِمام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ ھ) فرماتے ہیں :
’’ سلیمان بن حرب مذکورہ متن کے ان الفاظ وما منا الا ولکن اللّٰہ یذھبہ بالتوکل کو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول کہا کرتے تھے اور اس بات کی تائید کہ مذکورہ متن معلّل ہے اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس روایت کو ایک بڑی جماعت نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس اضافے کے بغیر روایت کیا ہے ۔‘‘۸۳؎
2۔ علت سندومتن دونوں میں ہو تو ایسی روایت کو معلّل السند والمتن کہا جاتا ہے ۔ اس کی مثال یہ ہے:
ثنا بقیۃ بن الولید ثنا یونس بن یزید عن الزھری عن سالم عن ابن عمر قال قال رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم :(( من أدرک رکعۃ من صلاۃ الجمعۃ أو غیرھا فقد أدرک الصلاۃ)) ۸۴؎
’’یعنی جس نے نماز جمعہ یا کسی اور نماز کی ایک رکعت پا لی اس نے نماز باجماعت پا لی ۔ ‘‘
اِمام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ (م ۳۲۷ ھ) اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں :
’’اس کی سند اور متن دونوں میں غلطی موجود ہے۔ بلاشبہ اس روایت کو تو اِمام زہری رحمہ اللہ ( م ۱۲۵ ھ) نے ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے بیان کیا ہے کہ ’’جس نے نماز کی ایک رکعت پا لی اس نے نماز کو پا لیا ‘‘اور جہاں تک ان الفاظ من صلاۃ الجمعۃ کا تعلق ہے تو یہ حدیث کا حصہ نہیں ہیں ۔ پس راوی کو سند اور متن دونوں میں وہم ہوا ہے ۔‘‘ ۸۵؎
’علم علل الحدیث‘ کی دقت
عللِ حدیث کی معرفت نہایت دقیق علم ہے ، یہ ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتا ، یہی باعث ہے کہ اس کے ماہرین کی تعداد بہت کم ہے اور صرف جہابذہ محدثین رحمہم اللہ ہی اس کے ماہر ہیں ۔
٭ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ (م ۶۴۳ ھ) نے فرمایا ہے:
إعلم أن معرفۃ علل الحدیث من أجل علوم الحدیث وأدقھا وأشرفھا وإنما یطلع بذلک أھل الحفظ والخبرۃ والفھم الثاقب ۸۶؎
’’ عللِ حدیث کی معرفت علومِ حدیث میں سب سے دقیق اور اشرف علم ہے ، یہ اسی کو حاصل ہوتا ہے جسے قوت ِحافظہ ، وسعت علم اور تیز فہم حاصل ہو ۔ ‘‘