کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 149
من الحدیث الصحیح ما ہو صحیح معلل ۷۳؎ 3۔ ’حدیث معلول‘ کی عام تعریف جو کتب اصول میں موجود ہے وہ یہ ہے کہ جس روایت میں کسی ثقہ راوی کی طرح وہم کی نسبت کی جائے، اس روایت کو’ معلول‘ کہتے ہیں ۔ ۷۴؎ ایک چیز کی گہرائی میں اترا جائے تو بسا اوقات ایک چیزبظاہر عیب دار نظر آتی ہے، لیکن درحقیقت وہ قادح نہیں ہوتی۔ جب کسی چیز کی گہرائی میں اترا جاتا ہے تو چونکہ عموما علماء کی دو یا زائد آراء سامنے آجاتی ہیں ، چنانچہ جن کی نظر میں وہ مخفی چیز قادح ہوتی ہے ان کی نظر میں وہ’ علت‘ بھی بنتی ہے اور جن کی نظر میں وہ قادح نہیں ہوتی ان کی نظر میں وہ روایت بھی معلول نہیں ہوتی۔ مزید واضح ہونا چاہیے کہ راوی کے بارے میں وہم کا فیصلہ عام طور پر اس قسم کے امور سے پتہ چلتا ہے، جیسے متن حدیث کا صریحی معلومات دین سے متعارض ہوجانا، جس کا حل ممکن نہ ہو۔ لیکن جو حدیث صحت سند سے ثابت ہوجائے، پھر اس میں اس قسم کا عیب پایا جائے، تو اس کے بارے میں عام امکان یہی ہے کہ اگر ایک محدث کو ایک شے محل اشکال معلوم ہوتی ہے تو دوسرا کوئی محدث بہرحال اسے حل کردے گا۔ چنانچہ سمجھنا چاہئے کہ روایات میں ٹکراؤ کی بحث ایسی نہیں کہ اس کی بنیاد پر کہا جا سکے کہ کسی حدیث کی صحت کا حتمی مدار اس ’عدم ٹکراؤ‘ پر ہے، لہٰذا اس بحث کے آخر میں آئے گا کہ عام اصولیین علّت اور شاذ کی بحث کو قبول حدیث کی شرائط میں اضافی تسلیم کرتے ہیں ۔ البتہ بسااوقات جب یہ حتمی طور پر ثابت ہوجاتا ہے کہ روایت میں راوی سے بشری تقاضا کے مطابق غلطی ہوگئی ہے تو پھر اس غلطی کی نسبت راوی کی طرف کیے جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا، بشرطیکہ وہ ایسا صریح اشکال ہو جو بالکل ظاہر و باہر ہو اور اس کے دلائل وقرائن اس قدر حتمی ہوں کہ کسی دوسری بات کی گنجائش نہ ہو۔ الغرض علل الحدیث فن حدیث کی سب سے گہری بحث ہے اور اس کے ماہرین صرف کبار محدثین رحمہم اللہ (جوکہ عموما روایت کی گہری بصیرت کے حامل بھی ہیں ) ہوتے ہیں ۔ اس لئے فن حدیث کی معتبر کتابوں میں اس بحث کو کافی نکھار کے پڑھنے اور واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ چند اہم فوائد 1۔ ضبط کی وجہ سے طعن فی الراوی کی پانچ قسمیں ہیں : سوء الحفظفحش الغلط 3۔ کثرت غفلت 4۔ وہم راوی 5۔ مخالفۃ الثقات پھر’مخالفۃ الثقات‘ کی اقسام میں سے ادراج، قلب اور اضطراب وغیرہ شامل ہیں ۔ پہلے دو اسباب کا وقوع راوی کو مطلقاً ضعیف بنا دیتاہے، جبکہ آخری تین کا کثر ت سے و قوع راوی کو ضعیف بناتا ہے۔ کبھی کبھی وہم یا کبھی کبھی غفلت یا کبھی کبھی اختلاف ِثقات راوی کو ضعیف نہیں بناتا، بلکہ روایت کو ضعیف بناتا ہے۔یہ وہم یا غفلت جاننے کا عام ذریعہ محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں اختلاف ثقات یا اختلاف روایات ہی ہیں ۔ چنانچہ جب کوئی محدث یہ کہتا ہے کہ یہ روایت فلاں عیوب کی وجہ سے، مثلاً اس کے راوی کو وہم ہوا ہے، ضعیف ہے، تو اس کا قطعی مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ روایت سنداً صحیح ہے، لیکن مختلف روایات میں تطبیق نہ ہوسکنے کی وجہ سے محدث نے اس روایت کو راوی کا وہم قرار دیا ہے، چنانچہ راوی پروہم وغیرہ کا الزام درحقیقت ضعف سند یا ضعف راوی کی وجہ سے نہیں بلکہ محدث کی اپنی کم فہمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر وہ روایت دوسرا کوئی محدث جمع کردے تو وہم کا یہ