کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 147
إن کانت المخالفۃ بتغییر حرف أو حروف مع بقاء صورۃ الخط فی السیاق ، فان کان ذلک بالنسبۃ الی النقط فالمصحف وان کان بالنسبۃ الی الشکل فالمحرف۶۸؎
’’اگر مخالفت اس طرح ہو کہ صورت ِخط توباقی رہے مگر ایک یا زیادہ حروف تبدیل ہو جائیں تو اگر یہ تبدیلی نقطوں کی ہو تو اسے مصحف کہا جائے گا اور اگر اعراب کی ہو تو وہ محرف کہلائے گی ۔ ‘‘
٭ مصحّفکی مثال یہ ہے:
حدثنا ابن لھیعۃ قال کتب الی موسی بن عقبۃ یخبرنی عن بسر بن سعید عن زید بن ثابت ((أن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم احتجم فی المسجد)) ۶۹؎
’’یعنی رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے مسجد میں پچھنے لگوائے ۔ ‘‘
اس حدیث کے متن میں لفظ احتجم(پچھنے لگوائے) میں تصحیف ہوئی ہے ۔ یہ اصل میں احتجر(گود میں لیا) تھا یعنی آخر میں میم کی بجائے راء تھی مگر ابن لَھِیعَہ(م ۱۷۴ ھ) راوی نے اس میں تصحیف کر کے احتجر سے احتجم بنا دیا ۔ ۷۰؎
٭ محرّفکی مثال یہ ہے:
بلغنا عن الدارقطنی فی حدیث ابی سفیان عن جابر قال :رمی ابی یوم الأحزاب علی أکحلہ فکواہ رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم ۷۱؎
’’یعنی جنگ احزاب میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے بازو کی ایک رَگ میں تیر لگا تو رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے انہیں داغ لگایا ۔ ‘‘
غندر نے اسے روایت کرتے ہوئے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے بجائے ’ابی ‘ یعنی میرا باپ کہا ہے حالانکہ جابر رضی اللہ عنہ کے والد تو اس جنگ سے پہلے جنگ اُحد میں ہی شہید ہو چکے تھے ۔
نوٹ: ’شاذ‘ حدیث کی اہل علم کے ہاں دو صورتیں ہیں :
۱۔ دو مختلف روایات صحیحہ میں ایسا تعارض جو جمع نہ ہوسکنے کی صورت میں اِدراج، قلب، اضطراب یا تصحیف وغیرہ پر اس لیے محمول کردیا جائے کہ ایک روایت کے رواۃ چونکہ زیادہ ثقہ یا تعداد میں کثیر ہیں ، چنانچہ اس روایت کو دوسری صحیح روایت پر ترجیح دے دی جائے۔ اس مرجوح روایت کو محدثین کرام رحمہم اللہ ’شاذ‘ اور راجح روایت کو ’محفوظ‘ کہتے ہیں ۔ اس صورت کی رو سے ’شاذ‘ کی بحث کا تعلق معمول بہ یا غیر معمول بہ روایت کی بحث سے ہوگا، جیسا کہ عن قریب آرہا ہے۔ البتہ اگر روایات صحیحہ کا باہمی تعارض ویسے ہی حل ہوجائے تو یہ بحث شاذ ومحفوظ کی رہے گی ہی نہیں ۔
۲۔ ’شاذ ‘حدیث کی ایک خاص صورت یہ بھی ہے کہ ایک ہی استاد سے کسی شے کو اخذ کرنے یا کسی واقعہ کے تحمل کے بعد اسے آگے نقل کرنے میں اگر مختلف مخبرین کا باہم خبروں میں اختلاف ہو جائے تو ان میں سے ثقہ راوی کی خبر چھوڑ کر اوثق یا ثقات کی رائے کو قبول کرلیا جائے۔ اس خاص صورت کی رو سے سے بحث ’شاذ ومحفوظ‘ کا تعلق ’استدراکات‘ کی بحث سے ہوگا، جس کے متعلق محدثین کرام رحمہم اللہ کا تفصیلی منہج چھٹے باب میں وضاحۃ آرہا ہے۔ بلکہ اس قسم کے رواۃ کے اختلاف کو عام محدثین رحمہم اللہ نے ’شاذ و محفوظ‘ کی بجائے اصطلاحی نام دیا ہی ’استدراکات‘ کا ہے۔ اس بحث کا خالص تعلق فن محدثین رحمہم اللہ سے ہے، جبکہ پہلی صورت کا کافی سارا تعلق فن فقہاء رحمہم اللہ کی بحث سے بھی ہے۔