کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 146
أرأیت لو کان علیھا دین أنت تقضیہ ؟ قال نعم ، قال:فدین اللّٰہ أحق أن یقضی ۵۹؎
’’یعنی ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ میری والدہ فوت ہو گئی ہے اور اس کے ذمہ کچھ روزے ہیں ، کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں ؟ آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا ’’ مجھے بتاؤ ! اگر اس کے ذمہ قرض ہوتا تو تم اسے ادا کرتے ؟‘‘ اس نے عرض کیا ، جی ہاں ۔ آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا ’’ پھر اللہ کا قرض ادائیگی کا زیادہ مستحق ہے ۔ ‘‘
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک عورت نے آ کر نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم سے دریافت کیا کہ میری والدہ فوت ہو گئی ہے اور اس کے ذمہ نذر کے روزے ہیں ، کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ... ۔‘‘۶۰؎
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ایک اور روایت میں ہے کہ ایک عورت نے آ کر نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم سے دریافت کیا کہ میری بہن فوت ہو گئی ہے اور اس کے ذمہ روزے ہیں ... ۔‘‘ ۶۱؎
اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے پوچھا تھا کہ میری والدہ فوت ہو گئی ہے اور اس کے ذمہ نذر کے روزے ہیں ، کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں ؟ ... ۔‘‘ ۶۲؎
اب ان تمام روایات کو مد ِنظر رکھا جائے تو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ میت والدہ تھی یا بہن ، سائل مرد تھا یا عورت اور میت کے ذمہ نذر کے روزے تھے یا کوئی اور ان تمام وجوہات کی بنا پر اِمام ابن عبد البر رحمہ اللہ (م ۴۶۳ ھ) نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث مضطرب ہے ۔ ۶۳؎
٭ اس کی ایک دوسری مثال یہ بھی بیان کی جاتی ہے:
عن شریک عن أبی حمزۃ عن عامر الشعبی عن فاطمۃ بنت قیس قالت سألت أو سئل النبی صلي اللّٰه عليه وسلم عن الزکاۃ فقال (( ان فی المال لحقا سوی الزکاۃ))۶۴؎
’’یعنی نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے ۔ ‘‘
سنن ابن ماجہ میں یہ روایت اسی سند سے مروی ہے مگر اس کا متن مختلف ہے جس وجہ سے اس میں اضطراب واقع ہو گیا ہے ۔ سنن ابن ماجہ کے الفاظ یہ ہیں:لیس فی المال حق سوی الزکاۃ
’’مال میں زکوٰۃ کے علاوہ کوئی حق نہیں ۔ ‘‘ ۶۵؎
٭ اِمام عراقی رحمہ اللہ (م ۸۰۶ ھ) اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں :
’’ اس میں ایسا اضطراب ہے جس میں کسی تاویل کا احتمال نہیں ۔‘‘ ۶۶؎
٭ اِمام سیوطی رحمہ اللہ (م ۹۱۱ ھ) نے بھی اِمام عراقی رحمہ اللہ (م ۸۰۶ ھ)کی طرح فرمایا ہے:
’’ یہ روایت ایسی مضطرب ہے کہ تطبیق ممکن نہیں ۔‘‘ ۶۷؎
4۔ مصحّف المتن
لفظ ’تصحیف‘ غلطی پر مبنی ایسے تغیر وتبدل کا نام ہے جس کی وجہ سے ثقات کی مخالفت ہو جائے۔ اگر تصحیف متن میں واقع ہو تو اسے مصحّف المتن کہا جاتا ہے ۔ تصحیف کی دو صورتیں ہیں ۔ اگر تبدیلی نقطوں کی ہو تو اسے ’ تصحیف‘کہا جاتا ہے۔اگر تبدیلی حروف کی ہو تو اسے’ تحریف‘ کہتے ہیں ۔ اگرچہ تحریف بھی تصحیف میں داخل ہے، مگر اہل علم اسے مستقل اصطلاحی نام’ تحریف‘ بھی دیتے ہیں ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ) فرماتے ہیں :