کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 144
روی الخطیب من طریق أبی قطن وشبابۃ عن شعبۃ عن محمد ابن زیاد عن أبی ھریرۃ قال قال رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم (( أسبغوا الوضوء ، ویل للأعقاب من النار)) ۴۷؎ ’’یعنی وضوء مکمل کرو ، (خشک) ٹخنوں کے لیے آگ سے ہلاکت ہے ۔ ‘‘ اس روایت کا پہلا حصہ یعنی أسبغوا الوضوء نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کا کلام نہیں بلکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا کلام ہے، جو راوی ابوقطن (م ۱۹۸ ھ) اور شبابہ(م ۲۰۶ ھ) نے غلطی سے نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا ہے ۔ اس بات کا یوں پتہ چلا کہ دیگر ثقہ رواۃ نے أسبغوا الوضوء کے الفاظ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف اور ویل للأعقاب من النار کے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی طرف منسوب کیے ہیں جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے: عن آدم عن شعبۃ عن محمد بن زیاد عن أبی ھریرۃ قال:أسبغوا الوضوء فان أبا القاسم صلي اللّٰه عليه وسلم قال ((ویل للأعقاب من النار)) ۴۸؎ آدم بن ابی ایاس (م ۲۲۱ ھ) کے علاوہ یہ روایت ابن جریر(م ۲۰۶ ھ) ، عاصم بن علی (م ۲۲۱ ھ)، علی بن الجعد(م ۲۳۰ ھ) ، غندر(م ۱۹۳ ھ)، ہشیم (م ۱۸۳ ھ)، یزید بن زریع(م ۱۸۲ ھ) ، نضر بن شمیل(م ۲۰۳ھ) ، وکیع (م ۱۹۷ ھ)، عیسیٰ بن یونس(م ۱۸۷ ھ) اور معاذ بن معاذ(م ۱۹۶ ھ) وغیرہ نے بھی شعبہ (م ۱۶۰ ھ)سے بیان کی ہے اور سب نے اس کے پہلے حصے کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ہی کلام کہا ہے ۔ ۴۹؎ ٭ اس کی ایک دوسری مثال یہ ہے: عن ابن شھاب عن عروۃ بن الزبیر عن عائشۃ أم المومنین أنھا قالت أول ما بدی بہ رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم من الوحی الرؤیا الصالحۃ فی النوم فکان لا یری رؤیا الا جاء ت مثل فلق الصبح ثم حبب الیہ الخلاء وکان یخلو بغار حراء فیتحنث فیہ ۔ وھو التعبد ۔ اللیالی ذوات العدد قبل أن ینزع الی أھلہ ۵۰؎ ’’اِمام زہری عروہ بن زبیر سے اور وہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ عليہ وسلم پر وحی کا ابتدائی دور سچے خوابوں سے شروع ہوا ۔ آپ خواب میں جو کچھ دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح صحیح اور سچا ثابت ہوتا ۔ پھر آپ تنہائی پسند ہو گئے اور آپ نے غار ِحراء میں خلوت نشینی اختیار فرمائی ، آپ وہاں تحنث یعنی عبادت میں کئی کئی راتیں مشغول رہتے ، اس سے پہلے کہ آپ اپنے گھر والوں کی طرف آتے ۔ ‘‘ اس روایت میں وھو التعبد کے لفظ مدرج ہیں اور یہ اِمام زہری رحمہ اللہ (م ۱۲۵ ھ)کا کلام ہے ۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ)نے یہ وضاحت فرمائی ہے اور علامہ طیبی رحمہ اللہ (م ۷۴۳ ھ)نے بھی یہی ذکر فرمایا ہے ۔ ۵۱؎ مقلوب المتن لفظ ’قلب‘ تبدیلی کو کہتے ہیں ، اگر راوی غلطی سے متن میں کوئی تبدیلی کر دے تو اسے مقلوب المتنکہتے ہیں ۔ مقلوب کی متقدمین سے تو کوئی جامع تعریف ہمیں نہیں ملی، البتہ متاخرین میں سے ڈاکٹر نور الدین عترنے اس کی ایک جامع تعریف یوں کی ہے: ھو الحدیث الذی ابدل فیہ راویہ شیئا بآخر فی السند أو المتن سھوا أو عمدا ۵۲؎ ’’مقلوب اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں راوی سند یا متن میں بھول کر یا جان بوجھ کر کوئی چیز تبدیل کر دے ۔ ‘‘ ٭ اس کی مثال یہ روایت ہے : عن أبی ھریرۃ عن النبی صلي اللّٰه عليه وسلم قال:سبعۃ یظلھم اللّٰہ فی ظلہ یوم لا ظل الا ظلہ ، الاِمام العادل ، وشاب