کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 133
تصورات کو فنی زبان میں مدون کرکے ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا ہے۔ اصول حدیث کی تعبیرات او راصطلاحات چونکہ اسلاف امت کے فہم شریعت کے ارتقائی مراحل سے گذرتے ہوئے موجودہ مدونہ صورت میں ہمارے پاس پہنچی ہیں ، لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم نقد روایت میں متن کی تحقیق کے معیار کا ارتقائی مراحل کے اعتبار سے ایک مختصر جائزہ پیش کردیں اور ا س کے بعد تحقیق متن کے سلسلہ میں محدثین کرام رحمہم اللہ کے تفصیلی منہج کا تذکرہ کریں ۔ نقدمتن اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فن حدیث میں نقد متن کوئی ایسی نئی روایت ہر گز نہیں ہے، جس کو متاخرین نے رواج دیا ہو یا جسے ’بدعت‘ کہا جاسکے، بلکہ نقد متن کی مکمل بنیاد حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ملتی ہے، جنہوں نے محدثین کرام رحمہم اللہ سے صدیوں قبل اس کا آغاز کردیا تھا، گویا نقد متن کا سہرا محدثین کرام رحمہم اللہ سے قبل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سر ہے، جنہوں نے جب بھی کسی دوسرے صحابی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے کوئی حدیث سنی تو اسے تحقیق کے تمام تر اصولوں کی روشنی میں پرکھ کر ہی قبول کیا۔ اس کے بعد اُمت تک پہنچانے کااہتمام کیا ہے۔ ٭ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : والاہتمام بنقد المتن لم یکن أمر جدّ فی العصور المتأخرۃ ولکن الصحابۃ ھم الذین وضعوا الأسس الأولیۃ لھذا الاہتمام بنقد المتن ۱۳؎ ’’نقد متن کا کام نیا نہیں ہے جو بعد کے ادوار میں شروع ہوا ہو، بلکہ اس کام کا آغاز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کیا ہے اور نقد متن کے اہتمام کی بنیادی اینٹ خود انہوں نے رکھی ہے۔‘‘ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب حفظہ اللہ نے متعدد مثالوں سے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نقد متن کوبھی قبول حدیث کے سلسلہ میں مد نظر رکھا ہے۔ ان میں سے ایک مثال یہ پیش کی گئی ہیکہ’’ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث (( من تبع جنازۃ فلہ قیراط)) کو قبول کرنے سے توقف کیا اور اس کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا۔ انہوں نے اس حدیث کی تصدیق فرما دی۔ اس کے بعد حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو قبول فرمالیا اور کہا: ’’ ہم نے تو بہت سے قیراط ضائع کردیے ہیں ۔‘‘ ۱۴؎ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ اور سفر و حضر میں آپ صلی اللہ عليہ وسلم کی رفاقت کی سعادت سے بہرہ وَر ہونے والے تھے اور انہیں مزاج شناسِ رسول کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، آپ صلی اللہ عليہ وسلم سے علم حدیث اخذ کرنے والے تھے اور سب سے پہلے متن حدیث ان کے ہاتھوں میں پہنچا تھا۔ جس وقت سند یا روایت کا وجود بھی ناپید تھا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس وقت متن ِحدیث کی تحقیق کا باقاعدہ آغاز فرمایا۔ اس سلسلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متن سے متعلقہ تحقیق کی چند امثلہ حسب ذیل ہیں ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ تحقیق حدیث میں ، تحقیق متن کا کام بھی اتنا ہی پرانا ہے، جتنا کہ سند حدیث کی تحقیق کا۔ البتہ واضح رہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہاں تحقیق متن کا اسلوب اور نوعیت کیا تھی؟ اس پر مفصل بحث باب ششم کی پہلی فصل میں آئے گی: 1۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: إن المیت لیعذاب ببکاء أھلہ علیہ ’’ میت کو اس کے گھر والوں کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے ۔ ‘‘