کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 12
اشیاء جو آپ صلی اللہ عليہ وسلم کے احوال ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور صداقت پر دلالت کرتی ہوں ۔ ‘‘ ۶۱؎
٭ علامہ طیبی رحمہ اللہ (م ۷۴۳ ھ)کا قول ہے:
’’ حدیث نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم یا صحابی یا تابعی کے قول ، فعل اور تقریر سے زیادہ عام ہے ۔ ‘‘ ۶۲؎
٭ منہاج الصالحین میں حدیث کی تعریف یوں مذکور ہے:
’’نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کا ہر قول جو ہماری طرف صحیح منقول ہوا ہے ، حدیث ہے ۔ ‘‘ ۶۳؎
٭ ڈاکٹر محمود طحان حفظہ اللہ رقمطراز ہیں :
’’اصطلاح میں ہر اس قول ، فعل ، تقریر اور صفت کو ’حدیث‘ کہتے ہیں جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی طرف کی جاتی ہو ۔ ‘‘ ۶۴؎
٭ مولانا عبد الغفار حسن رحمانی رحمہ اللہ (م ۱۴۲۸ ھ) فرماتے ہیں :
’’رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے قول ، فعل اور تقریر کانام حدیث ہے ۔ ‘‘ ۶۵؎
٭ مولانا عبد الرشید نعمانی ایک مقام پر نقل فرماتے ہیں:
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِطیبہ حقیقت میں قرآن مجید کی قولی اور عملی تفسیر ہے اور آپ کے ان ہی اقوال ، اعمال اور احوال کا نام حدیث ہے ۔ لفظ ِحدیث عربی زبان میں وہی مفہوم رکھتا ہے جو ہم اردو میں گفتگو ، کلام یا بات سے مراد لیتے ہیں ۔ چونکہ نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم گفتگو اور بات کے ذریعہ پیغامِ الٰہی کو لوگوں تک پہنچاتے ، اپنی تقریر اوربیان سے کتاب اللہ کی شرح کرتے اور خود اس پر عمل کر کے دکھاتے تھے ، اسی طرح جو چیزیں آپ کے سامنے ہوتیں اور آپ ان کو دیکھ کر یا سن کرخاموش رہتے تو اسے بھی دین کا جز سمجھا جاتا تھا کیونکہ اگر وہ اُمور منشا دین کے منافی ہوتے تو آپ یقینا ان کی اصلاح کرتے یا منع فرما دیتے ، لہٰذا ان سب کے مجموعہ کا نام احادیث قرار پایا ۔ ‘‘ ۶۶؎
٭ موصوف نے یہ بھی نقل فرمایا ہے:
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ، اعمال اور احوال کو حدیث سے تعبیر کرنا خود ساختہ اصطلاح نہیں بلکہ خود قرآن کریم ہی سے مستنبط ہے ۔ قرآن کریم نے دین کو نعمت فرمایا ہے اور اس نعمت کی نشر واشاعت کو تحدیث سے تعبیر کیا ہے ، چنانچہ ارشاد ہے:
﴿ وَاذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ مَا أَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنَ الْکِتَابِ وَ الْحِکْمَۃِ یَعِظُکُمْ بِہِ ﴾ ۶۷؎
’’اور یاد کرو اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو اور جو تم پر کتاب اور حکمت کو نازل فرمایا کہ تم کو اس کے ذریعے نصیحت فرمائے ۔ ‘‘
اور تکمیل دین کے سلسلے میں فرمایا :
﴿ الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ ﴾ ۶۸؎
’’آج کے دن میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل کر دیا اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کر دی ۔ ‘‘
دیکھئے ان دونوں آیات میں قرآن کریم نے دین کو نعمت کہا ہے اور سورۂ ضحی میں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو اسی نعمت کے بیان کرنے کا ان الفاظ میں حکم دیا ہے :
﴿ وَ أَمَّا بِنِعْمَۃِ ربِّکَ فَحَدِّثْ ﴾ ۶۹؎
’’اور اپنے رب کی نعمت کو بیان کیجئے ۔ ‘‘
پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی تحدیث ِنعمت کو حدیث کہتے ہیں ۔یہی نہیں انبیاء4 کے اقوال، اعمال اور احوال کے لیے خود قرآن مجید میں بھی متعدد مقامات پر حدیث ہی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ جیسے کہ
﴿ ھَلْ أَتَاکَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرَاھِیْمَ الْمُکْرَمِیْنَ ﴾ ۷۰؎
’’کیا تجھے ابراہیم علیہ السلام کے معزز مہمانوں کی خبر بھی پہنچی ہے۔‘‘