کتاب: علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول محدثین اور فقہاء کے طرز عمل کی روشنی میں - صفحہ 11
﴿ وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِیُّ إِلٰی بَعْضِ أَزْوَاجِہٖ حَدِیْثًا ﴾ ۵۳؎
﴿ فَلْیَأْتُوْ بِحَدِیْثٍ مِّثْلِہٖ ﴾ ۵۴؎
﴿ اَللّٰہُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیْثِ ﴾ ۵۵؎
اِصطلاحی تعریف
محدثین کرام رحمہم اللہ حدیث کی اصطلاحی تعریف یوں فرماتے ہیں :
ما أضیف إلی النبی صلي اللّٰه عليه وسلم من قول أو فعل أو تقریر أو وصف خلقی أوخلقی۵۶؎
اس تعریف سے واضح ہو گیا کہ حدیث سنت کی اس روایت کو کہتے ہیں جو صحابی آپ صلی اللہ عليہ وسلم سے کرے ۔ چنانچہ حدیث صحابی کی وہ خبر ہوتی ہے جو وہ نسبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرے ۔
٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ)لکھتے ہیں :
الخبر عند علماء الفن المراد ف للحدیث ۵۷؎
اس حوالے سے حدیث اور خبر کے درمیان کوئی فرق نہ ہوگا، چنانچہ لفظ حدیث مرفوع ،موقوف ، مقطوع تینوں قسم کی روایتوں کوشامل ہے۔ بعض علماء کے نزدیک خبر حدیث کے مقابلے میں عام ہے اور لفظ حدیث صرف نبی کریم سے منقول شے کے لئے خاص ہے ۔۵۷؎
محدثین کرام رحمہم اللہ کی اصطلاح میں حدیث نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کی طرف منسوب قول ، فعل ، تقریر (جو قول یا فعل آپ صلی اللہ عليہ وسلم کے سامنے سرزد ہوا مگر آپ اسے جاننے کے باوجود خاموش رہے) اور وصف خَلقی وخُلقی کا نام ہے ۔
٭ امام سخاوی رحمہ اللہ (م ۹۰۲ ھ)نے ان الفاظ میں حدیث کی تعریف فرمائی ہے:
ما أضیف إلی النبی صلي اللّٰه عليه وسلم قولا لہ أو فعلا أو تقریرا أو صفۃ حتی الحرکات والسکنات في الیقظۃ والمنام۵۸؎
’’نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کی طرف جو بھی منسوب کیا جائے ، قول ، فعل ، تقریر یا صفت حتی کہ بیداری اور نیند کی حالت کی حرکات وسکنات بھی ’حدیث‘ کہلاتی ہیں ۔ ‘‘
٭ علامہ کرمانی رحمہ اللہ (۷۸۶ ھ) نے فرمایا ہے:
اعلم أن علم الحدیث موضوعہ ذات رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم من حیث الرسول وحدہ وھو علم یعرف بہ أقوال رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم وأفعالہ وأحوالہ ۵۹؎
’’جان لینا چاہیے کہ علم حدیث کا موضوع رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی ذات بحیثیت رسول کے ہے اور یہ وہ علم ہے جس کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے اقوال ، افعال اور احوال کا علم ہوتا ہے ۔ ‘‘
٭ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م ۷۲۸ ھ)نے فرمایا ہے:
’’ علی الاطلاق حدیث نبوی سے مراد نبوت کے بعد آپ صلی اللہ عليہ وسلم کی طرف سے آپ کے قول ، فعل اور اقرار کا بیان ہے ۔ ‘‘ ۶۰؎
٭ علامہ جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ (م ۱۳۳۲ ھ)نے فرمایا ہے:
’’علم حدیث کا مقصود ایسی چیز کی طلب ہے جس سے دینی اُمور پر استدلال کیا جاتا ہو اور یہ چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول یا فعل یا تقریر ہے ۔ حدیث میں قبل از نبوت سیرت سے متعلق بعض اخبار بھی داخل ہیں مثلاً غار ِحراء میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خلوت نشینی ، حسن سیرت ، کرائم اخلاق ، محاسن افعال،حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول :’’ کلا واللّٰہ لا یخزیک اللّٰہ إنک لتصل الرحم وتحمل الکل وتکسب المعدوم وتعین علی نوئب الحق‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا امی ہونا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صدق وامانت کے لیے معروف ہونا یا اسی طرح کی وہ تمام