کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 964
(544) جو شخص گانے بجانے اور آلات موسیقی کو جائز قرار دے
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
بعض عود،طبلہ،سارنگی،کمان اور اس طرح کے دیگر آلات موسیقی کو گانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اسے جائز قرار دیتے ہیں ،ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟
الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ!
الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!
آیات قرانیہ اور احادیث نبویہ نے گانے بجانے اور آلات موسیقی کے استعمال کی مذمت کی ہے اور ان سے منع کیا ہے،قرآن کریم نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے،ان کا استعمال اسباب ضلالت اور اللہ کی آیات کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے،ارشاد باری تعالی ہے،
﴿وَمِنَ النّاسِ مَن یَشتَری لَہوَ الحَدیثِ لِیُضِلَّ عَن سَبیلِ اللَّہِ بِغَیرِ عِلمٍ وَیَتَّخِذَہا ہُزُوًا ۚ أُولـٰئِکَ لَہُم عَذابٌ مُہینٌ ﴿٦﴾... سورة لقمان
اور لوگوں میں بعض ایسا ہے جو بے حودہ حکایتیں خریدتا ہے تاکہ [لوگوں] کو بغیر علم کے اللہ کے راستے سے گمراہ کرے اور اس سے استہزاء کرے یہی وہ لوگ ہیں جن کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا۔
اکثر علماء نے "لھو الحدیث" کی تفسیر میں لکھا ہے اس سے مراد گانے ،آلات موسیقی اور ہر وہ آواز ہے جو حق سے روکے۔صحیح حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لیکونن من امتی اقوام یستحلون ،الحر،والحریر،والخمر۔والمعازف۔[صحیح بخاری ،الاشربة، باب ،ما جاء فیمن یستحل الخمرو یسمیہ بغیر اسمہ ،ح:۵۵۹۰]
'میری امت میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو زنا،ریشم،شراب اور آلات موسیقی کو حلال سمجھیں گے،
اس حدیث کے لفظ "معازف" سے مراد گانے اور آلات موسیقی ہے۔نبیّ نے خبر دی ہے کہ آخر زمانے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو اسے اسی طرح حلال سمجھیں گے،جس طرح زنا ،شراب ،اور ریشم کو حلال سمجھتے ہون گے،یہ حدیث علامات نبوت میں سے ہے۔یہ سب باتیں وقوع پذیر ہوگئی ہیں ،جس کی اس حدیث میں خبر دی گئی ہے۔یہ حدیث اس بات پہ دلالت کرتی ہے کہ یہ چیزیں حرام ہیں، اور انہیں استعمال کرنے والا اسی طرح قبل مذمت ہے جس طرح شراب اور زنا کو حلال سمجھنے والا قبل مذمت ہے۔بہت سی آیات اور احادیث سے یہ ثابت ہے کہ گانے اور آلات موسیقی حرام ہے ،اور جو شخص یہ گمان کرےکہ گانے اور آلات موسیقی جائز ہے تووہ جھوٹ بولتا ہے،اور ایک بہت بڑی برائی کا ارتکاب کرتا ہے،ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں خواہش نفس اور شیطان کی پیروی سے محفوظ رکھیں اور اس بھی زیادہ شدید اور بد ترین جرم اس شخص کا ہے،جو یہ کہے کہ ان کا استعمال مستحب ہے کیونکہ یہ بات بلا شک و شبہ اللہ تعالی اور اس کے دین سے جہالت پہ مبنی ہے بلکہ یہ اللہ تعالی کے بارے میں جرات اور شریعت کے بارے میں ایک جھوٹی بات ہے،جو چیز مستحب ہے وہ عورت سے نکاح کے خاص موقع پہ صرف دف بجانا ہے،تاکہ نکاح کا اعلان کیا جا سکے اس میں اور زنا میں فرق کیا جا سکے۔چھوٹی بچیاں عورتوں کی محفلوں میں دف پہ گیت گا سکتی ہیں،بشرطیکہ ان میں کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے برائی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہویا کسی واجب کے ادا کرنے میں رکاوٹ بنتی ہو اور پھر یہ بھی شرط ہے کہ عورتوں اور مردوں کی مخلوط محفل نہ ہو ایسی ہو کہ اس سے پڑوسیوں کو تکلیف اور ایذاء نہ پہنچتی ہو۔بعض لوگ لاوڈ اسپیکر کے ذریعے سے اس طرح کے جو اعلانات کرتے ہیں تو یہ ایک انتہائی بری بات ہے،کیونکہ اس سے پڑوسیوں اور دیگر مسلمانوں کو ایذاء پہنچتی ہے۔بچیوں اور عورتوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ شادی کی محفلوں یا دیگر محفلوں میں دف کے علاوہ دیگر آلات موسیقی مثلا ،طبلہ،سارنگی،اور رباب وغیرہ کو استعمال کریں ۔ان کا استعمال کرنا بہت گناہ کا کام ہے،نا بالغ بچیوں صرف دف ہی کی استعمال اجازت ہے۔آدمیوں کے لیے ان میں سے کسی بھی چیز کا استعمال شادی کی محفل میں یا کسی دوسری محفل میں ہرگز جائز نہیں ،اللہ تعالی نے مردوں کے لیے اس بات کو مشروع قرار دیا ہےکہ وہ آلات جنگ کے استعمال کی مشق کریں،نیزہ بازی اور گھڑ سواری کا مقابلہ کریں،تیروں اور ڈھال کے استعمال کی مشق کریں،ٹینکوں اور ہوائی جہازوں کی ٹریننگ لیں ،یا توپوں،مشین،گنوں،بموں کے استعمال کی مشق کریں نیز ہر اس چیز کے استعمال کا طریقہ سیکھیں،جو جہاد فی سبیل اللہ میں ممدو معاون ثابت ہو سکتا ہو۔میں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کے حالات کی اصلاح فرمائے،انہیں دین کی سمجھ بوجھ عطا فرمائے اور ہر ایسی چیز کے سیکھنے کی توفیق بخشے ،جو دشمن سے جہاد اور اپنے دین ووطن کے لیے مفید ہو
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ
ج4ص414