کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 86
(136) تعلیمی اداروں میں اختلاط کے خطرات السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ایک نوجوان یہ کہتا ہے کہ اس کا تعلق ایک امیر گھرانے سے ہے اور وہ ایک ایسے سکول میں پڑھتا ہے جہاں مخلوط تعلیم ہے جس کی وجہ سے اس نے جنس مخالف کے ساتھ ناشائستہ تعلقات قائم کر رکھے ہیں اور گناہوں میں غرق ہو چکا ہے ، اسے اس نجات حاصل کرنے کے لئے کیا کرنا چاہیے؟ کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ توبہ کی قبولیت کی کیا شرطیں ہیں؟ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! اس سوال میں دو باتیں قابل غور ہیں (1)ہمیں اسلامی ملکوں کے حکمرانوں کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہیے کہ انہوں نے اپنی  اپنی قوموں کے لئے مخلوط تعلیمی اداروں کا جو اہتمام کیا ہے تو یہ اسلامی شریعت اور مسلمانوں کو جس اخلاق و کردار کا حامل ہونا چاہیے۔ اس کے خلاف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((خیر صفوف الرجال أولہا وشرہا آخرہا وخیرصفوف النساء آخرہا وشرہا أولہا )) (صحیح مسلم ) ’’عورتوں کی بہترین صف آخری اور بدترین(اجر و ثواب کے لحاظ سے کم درجے والی)پہلی ہے۔‘‘ اور یہ اس لئے کہ پہلی صف مردوں کے قریب ہوتی ہے اور آخری صف ان سے دور ہوتی ہے۔ اگر مردوں اور عورتوں میں دوری اور عدم اختلاط قابل رغبت ہے حتیٰ کہ نماز جیسی عبادت میں بھی جبکہ نمازی نماز ادا کرتے ہوئے یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ دنیا سے الگ تھلگ ہو کر اپنے رب کے سامنے کھڑا ہے تو اس سے اندازہ فرمائیے کہ مدارس میں اختلاط سے اجتناب کس قدر ضروری ہے؟ کیا ان میں دوری اور عدم اختلاط کی زیادہ ضرورت نہیں ہے؟ در حقیقت بات یہ ہے کہ مردوں اور عورتوں کا اختلاط ایک بہت بڑا فتنہ ہے جسے ہمارے دشمنوں نے مزین کر کے ہمارے سامنے پیش کیا ہے اور جس میں ہمارے بہت سے مسلمان بھی مبتلا ہو چکے ہیں صحیح بخاری میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: ((کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا سلم قام النساء حین یقضی تسلیمہ، و مکث  یَسِیرًا قَبْلَ أَنْ یَقُومَ " . قَالَ ابْنُ شِہَابٍ : فَنَرَی وَاللَّہُ أَعْلَمُ أَنَّ مُکْثَہُ ذَلِکَ لِیَنْصَرِفَ النِّسَاءُ قَبْلَ أَنْ یُدْرِکَہُنَّ الرِّجَالُ مِمَّنِ انْصَرَفَ مِنَ الْقَوْمِ .)) (صحیح البخاری) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام مکمل ہوتے ہی عورتیں کھڑی ہو جاتی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھنے سے پہلے کچھ دیر بیٹھے رہتے تھے۔ ابن شہباب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ بہتر جانے، ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر اس لئے بیٹھتے تھے کہ عورتیں مردوں سے پہلے چلی جائیں۔‘‘ اسلامی ملکوں کے حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ اس طرف اپنی توجہ مبذول کریں اور اپنی اپنی قوموں کو فتنے اور شر کے اسباب سے محفوظ رکھیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ان سے ان کی رعایا کے متعلق باز پرس کرے گا۔ انہیں اس حقیقت کو بھی خوب جان لینا چاہیے کہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں گے اور تمام چھوٹے بڑے امور میں شریعت کے مطابق فیصلہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ بھی دلوں کو ان کی طرف مائل کردے گا اور ان کی محبت و خیر خواہی سے بھر دے گا، ان کے معاملات کو آسان کر دے گا اور ان کی قومیں ان کی محبت و اطاعت کا دم بھریں گی۔ امت اسلامیہ کے حکمرانوں اور عوام کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اس اختلاط کی وجہ سے کس قدر شر اور فتنہ و فساد  پھیل گیا ہے او راس کی ایک بہت نمایاں مثال اور ایک بہت بڑا ثبوت وہ ناشائستہ تعلقات ہیں جن کا سائل نے اپنے سوال میں ذکر کیا ہے اور جن کے اثرات اور گناہوں سے بچنے کی اب وہ کوشش کررہا ہے۔ صدیق نیت اور اصلاح کے عزم راسخ کے ساتھ فتنہ اختلاط کو ختم کرنا مکمن ہے اور وہ اس طرح کہ خواتین کے لئے ایسے مخصوص مدارس، ادارے، کالج، یونیورسٹیاں بنا دی جائیں  جن میں مردوں کی شرکت نہ ہو، عورتیں بھی چونکہ مردوں ہی کی ہم پلہ ہیں، انہیں بھی تعلیم حاصل کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے لیکن ان کی تعلیم کا میدان مردوں کی تعلیم کے میدان سے دو راور الگ ہونا چاہیے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو سعید خدری صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے عرض کیا: ((یا رسول اللہ ، ذہب الرجال بحدیثک ، فاجعل لنا من نفسک یوما ، نأتیک فیہ تعلمنا مما علمک اللہ . فقال : اجتمعن فی یوم کذا وکذا فی مکان کذا وکذا ، فاجتمعن فأتاہن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فعلمہن مما علمہ اللہ )) (صحیح البخاری) ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کی حدیث( کا علم زیادہ تر)مرد لے گئے لہٰذا آپ ہمارے لئے بھی ایک دن مخصوص فرما دیں تاکہ ہم حاضر ہوں اور آپ ہمیں بھی وہ دین سکھائیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم فلاں فلاں دن فلاں فلاں جگہ جمع ہو جانا ، چنانچہ خواتین(ان مخصوص مقامات پر مخصوص اوقات میں جمع ہو جاتیں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمان کے پاس تشریف لا کر انہیں بھی اس دین کی تعلیم دیتے جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تھی۔‘‘ یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ عورتوں کے لئے تعلیم کی الگ جگہ مخصوص ہونی چاہیے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ خاتون کے جواب میں یہ نہیں فرمایا کہ تم مردوں کے ساتھ ہی کیوں شامل نہیں ہو جاتیں؟ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرامؓ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ یہ بھی دنیا و آخرت میں عزت و کرامت حاصل کر سکیں۔ دوسری قابل غوربات سائل کا سوال ہے جس میں اس نے اپنے بارے میں یہ ذکر کیا ہے کہ جنس مخالف کے ساتھ ناشائستہ کی وجہ سے وہ گناہوں میں غرق ہو چکا ہے لہٰذا وہ کیا کرے؟ کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ قبولیت توبہ کی شرطیں کیا ہیں، میں تو اسے یہ بشارت سناتا ہوں کہ توبہ کا دروازہ ہر توبہ کرنے والے کے لئے کھلا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور توبہ کرنے والوں کے تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قُل یـٰعِبادِیَ الَّذینَ أَسرَ‌فوا عَلیٰ أَنفُسِہِم لا تَقنَطوا مِن رَ‌حمَةِ اللَّہِ ۚ إِنَّ اللَّہَ یَغفِرُ‌ الذُّنوبَ جَمیعًا ۚ إِنَّہُ ہُوَ الغَفورُ‌ الرَّ‌حیمُ ﴿٥٣﴾... سورة الزمر ’’(اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو ) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ، اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا، اللہ تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے (اور) وہ بہت بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ اگر آپ اس کام سے توبہ کریں جو آپ سے سرزد ہو چکا ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دے گا جیسا کہ وہ ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَالَّذینَ لا یَدعونَ مَعَ اللَّہِ إِلـٰہًا ءاخَرَ‌ وَلا یَقتُلونَ النَّفسَ الَّتی حَرَّ‌مَ اللَّہُ إِلّا بِالحَقِّ وَلا یَزنونَ ۚ وَمَن یَفعَل ذ‌ٰلِکَ یَلقَ أَثامًا ﴿٦٨﴾ یُضـٰعَف لَہُ العَذابُ یَومَ القِیـٰمَةِ وَیَخلُد فیہِ مُہانًا ﴿٦٩﴾ إِلّا مَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صـٰلِحًا فَأُولـٰئِکَ یُبَدِّلُ اللَّہُ سَیِّـٔاتِہِم حَسَنـٰتٍ ۗ وَکانَ اللَّہُ غَفورً‌ا رَ‌حیمًا ﴿٧٠﴾ وَمَن تابَ وَعَمِلَ صـٰلِحًا فَإِنَّہُ یَتوبُ إِلَی اللَّہِ مَتابًا ﴿٧١﴾... سورة الفرقان ’’ اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنااللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، اس کو قتل نہیں کرتے مگر جائز طریق(یعنی شریعت کے حکم) سے اور وہ بدکاری نہیں کرتے اور جو کوئی یہ کام کرے گا، سخت گناہ میں مبتلا ہو گا قیامت کے دن اس کو دوہرا عذاب ہو گا اور ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اس میں رہے گا مگر جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور اچھے کام کریں تو ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے اور جو شخص توبہ کرے اور نیک عمل کرے وہ حقیقتاً اللہ کی طرف سچا رجوع کرتا ہے۔‘‘ باقی رہی توبہ کی شرطیں تو وہ پانچ ہیں۔: (1) ۔ توبہ خالص اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہو اور اس میں ریا کاری یا کسی مخلوق کا ڈر نہ ہو، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لئے ہو کیونکہ ہر وہ عمل جسے انسان قرب الٰہی کے حصول کے لئے سرانجام دینا چاہیے مگر وہ اس میں مخلص نہ ہو تو وہ رائیگاں اور باطل ہے ۔ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ((أنا أغنی الشرکاء عن الشرک من عمل عملا أشرک فیہ معی غیری ترکتہ وشرکہ )) ( صحیح مسلم) ’’میں تمام شرکا کی نسبت شرک سے زیادہ بے نیاز ہوں کوئی شخص کوئی عمل کرے اور اس میں میرے ساتھ کسی اور کو بھی شریک کرے تو میں اسے اس کے شرک سمیت ترک کر دیتا ہوں۔‘‘ (2)۔آدمی اپنے گناہ پر ندامت کااظہار کرے ، اپنے آپ کو خطاکار سمجھے اور محسوس کرے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی اور مغفرت کی ضرورت ہے۔ (3)۔ اگر ابھی تک گناہ میں ملوث ہے تو اسے ترک کردے کیونکہ جو گناہ پر ڈٹا رہے اس کی توبہ قبول نہیں ہوتی کیونکہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں اس گناہ سے توبہ کرتا ہوں اور پھر بھی وہ اس کا ارتکاب کرے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مذاق کرتا ہے، جس طرح مثلاً آپ مخلوق میں سے کسی سے یہ کہیں کہ آپ کے بارے میں مجھ سے جو بے ادبی ہوئی ہے اس پر میں نادم ہوں لیکن اس کے باوجود آپ مزید بے ادبی کرتے چلے جائیں تو یہ اس سے مذاق ہو گا۔ اللہ عزوجل کی ذات گرامی تو بہت عظیم و جلیل ہے کہ آپ دعویٰ تو گناہ سے توبہ کا کریں مگر اس کے باوجود گناہ پر ڈٹے رہیں۔ (4)۔ توبہ کے لئے چوتھی شرط یہ ہے کہ آپ پختہ ارادہ کریں کہ آئندہ اس گناہ کا ارتکاب نہیں کریں گے۔ (5)۔پانچویں شرط یہ ہے کہ توبہ، قبولیت توبہ کے وقت میں ہو یعنی پیام موت کے آنے سے پہلے اور سورج کے مغرب کی طرف سے طلوع ہونے سے پہلے پہلے ہو۔ جس دن سورج مغرب سے طلوع ہوا، اس دن توبہ قبول نہ ہو گی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ہَل یَنظُر‌ونَ إِلّا أَن تَأتِیَہُمُ المَلـٰئِکَةُ أَو یَأتِیَ رَ‌بُّکَ أَو یَأتِیَ بَعضُ ءایـٰتِ رَ‌بِّکَ ۗ یَومَ یَأتی بَعضُ ءایـٰتِ رَ‌بِّکَ لا یَنفَعُ نَفسًا إیمـٰنُہا لَم تَکُن ءامَنَت مِن قَبلُ أَو کَسَبَت فی إیمـٰنِہا خَیرً‌ا ۗ قُلِ انتَظِر‌وا إِنّا مُنتَظِر‌ونَ ﴿١٥٨﴾... سورة الانعام ’’ یہ اس کے سوا اور کس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں، جس روز تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آ جائیں گی تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہو گا اس وقت اس کا ایمان لانا اسے کچھ فائدہ نہیں دے گا یا اپنے ایمان (کی حالتض میں نیک عمل نہیں کئے ہوں گے (تو گناہوں سے توبہ کرنا مفید نہ ہو گا اے پیغمبر!ان سے ) کہہ دو کہ تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔‘‘ اس آیت میں مذکور کچھ نشانیوں سے مراد سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ہے، اسی طرح جب موت کا وقت آ جائے تو پھر بھی توبہ قبول نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَلَیسَتِ التَّوبَةُ لِلَّذینَ یَعمَلونَ السَّیِّـٔاتِ حَتّیٰ إِذا حَضَرَ‌ أَحَدَہُمُ المَوتُ قالَ إِنّی تُبتُ الـٔـٰنَ وَلَا الَّذینَ یَموتونَ وَہُم کُفّارٌ‌ ۚ أُولـٰئِکَ أَعتَدنا لَہُم عَذابًا أَلیمًا ﴿١٨﴾... سورةالنساء ’’اور ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی ہو جو(ساری عمر) برے کام کرتے رہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آ موجود ہو تو اس وقت کہنے لگے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں اور نہ ان کی (توبہ قبول ہوتی ہے) جو کفر کی حالت میں مریں، ایسے لوگوں کے لیء ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘ اگر یہ (پانچویں شرطیں) موجود ہوں تو پھر ان شاء اللہ آپ کی توبہ مقبول ہو گی۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اسلامیہ ج3ص114