کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 854
(168) ٹوپی پر عمامہ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ماہنامہ ''البر'' لاہور فروری ۱۹۹۲ء ص۳۵ پر ایک روایت مروی ہے کہ (( فرق ما بیننا  وبین المشرکین  العمائم علی القلاس.)) ''ہم میں اور مشرکوں میں فرق ہے تو ٹوپیوں پر عمامے ہیں۔ کیا یہ روایت درست ہے؟ اگر یہ روایت درست ہے تو کچھ لوگ جو صرف اکیلی ٹوپی پہنتے ہیں یا صرف پگڑی باندھتے ہیں، صحیح کرتے ہیں اور اگر یہ روایت درست نہیں تو وضاحت فرمائیں؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے منسوب یہ روایت انتہائی کمزور ہے کیونکہ اس روایت کی سنداس طرح ہے: ((حَدَّثَنَا قُتَیْبَةُ بْنُ سَعِیدٍ الثَّقَفِیُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِیعَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ الْعَسْقَلَانِیُّ، عَنْ أَبِی جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ رُکَانَةَ، عَنْ أَبِیہِ، أَنَّ رُکَانَةَ صَارَعَ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَرَعَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ " قَالَ رُکَانَةُ: وَسَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: «فَرْقُ مَا بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْمُشْرِکِینَ، الْعَمَائِمُ عَلَی الْقَلَانِسِ.))             ''نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے رکانہ سے کشتی لڑی اور اسے پچھاڑ دیا۔ رکانہ نے کہا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہمارے اور مشرکین کے درمیان فرق ٹوپیوں پر پگڑی باندھنا ہے۔''    (ابو داؤد لباس۴۰۷۸، ترمذی۱۷۸۴،۱'۲۱۷/۴) اس روایت کی سند میں تین مجمول راوی ہیں۔ ۱)         ابو الحسن عسقلانی ، مجہول تقریب ص٤٠١ ۲)        ابو جعفر بن محمد بن رکانہ ، مجہول تقریب ص٣٩٩ ۳)        محمد بن رکانہ ، مجہول تقریب ص٢٩٧             اس لئے امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرمایا  " ہذا حدیث غریب و إسنادہ  لیس بالقائم ولا نعرف أبا الحسن  العسقلانی ولا ابن رکانة "(ترمذی مع تحفہ۷۰/۳) یہ روایت غریب ہے س کی سند درست نہیں اور ابو الحسن عسقلانی اور ابن رکانہ کو ہم نہیں پہچانتے۔''             علامہ مبارک پوری تحفة الاحوذی۷۰/۳ پر فرماتے ہیں:        " و فی الجامع الصغیر  بروایة  الطبرانی  عن ابن  عمر کان یلبس قلنسوة  بیضاء قال العزیزی إسنادہ حسن"             ''الجامع الصغیر میں ابنِ عمر سے روایت ہے جس کی سند کو علامہ عزیزی نے حسن قرار دیا ہے کہ نبی اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  سفید ٹوپی پہنتے تھے۔''             لیکن علامہ البانی حفظہ اللہ نے اسے ضعیف الجامع میں درج کیا ہے۔ (ص۶۶)             اس طرح کی کئی روایتیں امام ابو نعیم اصبہانی نے کتاب اخلاق النبی   صلی اللہ علیہ وسلم  و آدابہ میں نقل کی ہیں جن سے معلم ہوتا ہے کہ آ پ   صلی اللہ علیہ وسلم  ٹوپی عمامہ کے بغیر بھی پہنتے تھے۔ امام ابنِ قیم رحمۃ اللہ علیہ زاد المعاد ۱۳۵/۱پر رقم طراز ہیں: (( کانت لہ عمامة تسمی السحاب کساہا علیا  وکان یلبسہا  و یلبس تحتہا القلنسوة  وکان یلبس القلنسوة بغیر عمامة ویلبس  العمامة بغیر قلنسوة .))             ''نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس ایک پگڑی تھی جس کا نام سحاب تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو پہنائی۔ اسے آپ پہنتے اور کبھی اس کے نیچے ٹوپی ہوتی اور کبھی ٹوپی بغیر پگڑی کے اور پگڑی بغیر ٹوپی کے پہن لیتے۔''             امام ابنِ قیم رحمة اللہ علیہ کی اس تصریح سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف پگڑی باندھنا یا صرف ٹوپی لینا یا ٹوپی پر پگڑی باندھ لینا، تینوں طرح جائز و صواب ہے۔ کسی صحیح حدیث سے اس کی نفی یا ممانعت نہیں ہے۔ اہل بدعت کا اس طرح عمامے کے متعلق قیود و پابندیاں لگانا اس کے جعلی فضائل بیان کرنا جیسا کہ فیضانِ سنت میں سبز پگڑی والوں کے پیر الیاس قادری نے ذکر کیا ہے یا ماہنامہ البر میں مولوی شفیع اوکاڑوی کا اس بارے میں ذکر کرنا احادیثِ صحیحہ کے خلاف ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب آپ کے مسائل اور ان کا حل ج 1