کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 7
انتخابی سیاست
وطنیت اور سیاست کا حکم
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
کیا کسی انسان کےلیے یا مومن کیلئے یہ کہنا حرام ہے کہ (انا وطنی(میں وطن پرست ہوں )کیا کسی انسان کےلیے داخلی یاخارجی سیاست پر بات کرنا حرام ہے؟
1’’وطن پرست‘‘ سے لغوی معنی ’’وطن کا پجاری‘‘ مراد نہیں ‘ بلکہ وہ مفہوم مراد ہے جو عرف عام میں سمجھا جاتا ہے۔ یعنی اپنے ملک کو زیادہ اہمیت دینے والا‘ اپنے وطن اور اہل وطن کے فائدہ کے لئے بڑھ چڑھ کر کام کرنے والا۔
الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!
مسلمان کےلیے فخر کی سب سے بڑی بات اور اس کا بلند ترین مقام یہ ہے کہ وہ اسلام کی طرف منسوب ہو اور دین کی تائید ونصرت اور اعلائے کلمة اللہ کے لئے فی سبیل اللہ جہاد کرے۔ مسلمان کو کہنا چاہئے: ’’میں مسلم ہوں ‘‘ اس سے اس کی شان اور درجہ زیادہ بلند ہوتا ہے۔ دین اسلام اور اخوت ا سلامی ہی سے اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں اتحاد پیدا فرمائے گا۔ وطنیت کے نعرے اور تخریب اور مسلمانوں کے باہمی افتراق کا ذریعہ ہیں ‘ جب کہ اس سے مقصود دوسرے ممالک کے مسلمانوں پر اپنی برتری کا اظہار ہو۔ اگر محض تعارف کیلئے وطن کا ذکر کیا جائے‘ مقصد یہ ہو کہ میں فلاں ملک کا باشندہ ہوں دوسرے کسی ملک کا نہیں ‘ تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ نے قومیت کے متعلق ایک رسالہ بھی تصنیف کیا ہے۔
امت اور قوم کی داخلی اور خارجی سیاست پر بات کرنا حرام نہیں بشرطیکہ اس سے اسلام اور مسلمانوں کو فائدہ ہو اور ایسے فتنے پیدا نہ ہوں جن کانتیجہ افتراق‘ بزدلی‘ ناکامی اور تنزلی ہو۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
اللجنة الدائمة۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز
فتویٰ (۸۹۷۳)
فتاوی بن باز رحمہ اللہ
جلددوم -صفحہ 145