کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 637
(605) اس کھیل کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ اس کھیل کے بارے میں کیا حکم ہے  ،جو آج کل بازاروں میں بچے اور جوان کھیل رہے ہیں ۔ یہ ایک میز ہے ، جس میں فٹ بال کھیلنے والوں کی تصویریں ہیں ، اس میں ایک چھوٹی گیند رکھی جاتی ہے ، جسے ہاتھوں سے ہلایا جاتا ہے ۔ شکست کھانےوالا کھیل کی قیمت ادا کرتا ہے جب  کہ فتح پانے والا کچھ ادا نہیں کرتا تو کیا اس طرح کے کھیل اسلامی شریعت میں جائز ہیں ؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!  اگر اس کھیل کی یہی حالت ہے جو آپ نے بیان کی ہے کہ کھیل کی میز پر تصویریں بنی ہوئی ہیں اور شکست کھانے والوں کو کھیل کی اجرت دینا پڑتی ہے اور فتح حاصل کرنے والے کو کچھ ادا نہیں کرنا پڑتا تو یہ کھیل کئی وجہ سےحرام ہے : اولاً : اس کھیلیں مشغول ہونا لہو ہے ، جو کھیلنے والے کی فرصت کے لمحات کو برباد کردیتا ہے اور اس کی دین و دینا کی بہت سی مصلحتوں کو ضائع کردیتاہے حتی کہ یہ کھیل اس کی عادت بن جاتا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ جوئے کی ایک قسم ذریعہ بن جاتا ہے اور جو کھیل اس طرح کا ہو وہ شرعا باطل اور حرام ہے ۔ ثانیا ً: تصویروں کو بنانا اور حاصل کرنا کبیرہ گناہ میں سے ہے جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہوتاہے کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ نے تصویر کشی پر جہنم کی آگ اور درد ناک عذاب کی وعید سنائی ہے ۔ ثالثاً : شکست کھانے والے کو گیند استعمال کرنے کی اجرت ادا کرنا حرام ہے کیونکہ لہو ولعب میں مال خرچ کرنے کی وجہ سے یہ اسراف اور مال کو ضائع کرنا ہے ۔ گیند کو اجرت پر لینا عقد باطل ہے اور کمائی کرنے والے کی یہ کمائی حرام ہے کیونکہ یہ باطل طریقےسے مال کھانا ہے لہذا یہ کھیل کبیرہ گناہ بھی ہے اور حرام بھی ہے اور حرام جوا بھی۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اسلامیہ ج4ص460