کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 596
ہندو کے گلاس میں پانی پینا یا اس کا جھوٹا پانی پینا ؟
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
ہندو کے گلاس میں پانی پینا یا اس کا جھوٹا پانی پینا کیسا عمل ہے۔؟
الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ!
الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!
ہندو سمیت کسی بھی غیر مسلم کے برتن کو دھو کر اس میں پانی پینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔باقی رہی جھوٹے کی بات تو اگر اس کے جسم یا منہ پر ظاہری نجاست موجود نہ ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ ابو داود (حدیث۳۸۳۹) میں صحیح سند کے ساتھ ابو ثعلبہ خشنی سے روایت ہے کہ ''میں نے عرض کی: ہم اہل کتاب کی ہمسائیگی میں رہتے ہیں اور وہ اپنی ہانڈیوں میں خنزیر پکاتے اوراپنے برتنوں میں شراب پیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہیں ان کے علاوہ برتن مل جائیں تو انہی میں کھائو اور اگر ان کے علاوہ نہ ملیں تو ان کو پانی سے دھو لو اور ان میں کھاؤ۔''(ارواء الغلیل ص۷۵، ج۱)
صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مشرکہ عورت کا مشکیزہ لے کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فرمایا کہ خود بھی پیو اور جانوروں کو بھی پلائو۔''
اس حدیث پر حافظ ابنِ حجر فرماتے ہیں : اس حدیث سے استدلال کیا جاسکتا ہے کہ مشرکین کے برتنوں میں اگر یقینی طور پر نجاست نہ ہو تو ان کا استعمال جائز ہے ۔ خلاصہ یہ کہ کسی بھی غیر مسلم سے کھانے کی چیز لے کر کھانا (جس میں نجاست نہ ہونے کا یقین ہو) جائز ہے ۔ البتہ ذبیحہ صرف اہل کتاب کا جائز ہے۔ مشرکین کا ذبیحہ جائز نہیں ہے۔ کفار سے لی ہوئی عام اشیاء اگر ان کے پاک ہونے کا یقین نہ ہو تو وہ کھانا جائز نہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتوی کمیٹی
محدث فتوی