کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 580
عیسائیوں کے ہاں کھانا پینا اور چند دیگر سوالات
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
(۱) بسا اوقات مجھے میرا کوئی عیسائی ہم جماعت اپنے گھر آنے اور کھانا کھانے کی دعوت دیتا ہے تو کیااس کے گھر سے کھانا کھالینا جائز ہے جب کہ یہ یقین ہوجائے کہ جو کھانا تیار کیا گیا ہے وہ شرعی طور پر حلال ہے۔
(۲) کیا میں انہیں توحید الٰہی کے اثبات پر مشتمل کتابیں پیش کرسکتا ہوں۔ جب کہ قرآن مجید کی آیات عربی عبارت میں موجود ہوں اور ان کا ترجمہ انگریزی زبان میں کیا ہو؟
(۳) کبھی کبھار ان میں سے کسی کے گھر ہوتا ہوں اور نماز کا وقت ہوجاتا ہے‘ تو میں اپنا مصلیٰ لے کر ان کے سامنے وہیں نماز پڑھ لیتا ہوں تو کیا کے گھر میں پڑھی ہوئی نماز ہوجاتی ہے؟
(۴) عیسائیوں نے مجھے اپنے ساتھ گرجا گر جانے کی دعوت دی۔ میں نے کہا ’’میں پوچھے بغیر نہیں جاؤں گا۔ ‘‘ تو کیا میرے لئے ان کے ساتھ جانا جائز ہے تاکہ میں انہیں اسلام کی رواداری کا قائل کرسکوں اور واضح کرسکوں کہ یہ معاشرے کے حقوق کا خیال رکھنے والا دین ہے اور تاکہ انہیں اسلام کی دعوت کی گنجائش پیدا ہوسکے؟ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کا مذہب عیسائی ہے اور وہ پرونسٹنٹ فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے کہنے کے مطابق ان کی نماز میں رکوع اور سجدہ نہیں ہوتا۔ واضح رہے کہ میرا عیسائی مذہب قبول کرنا محال ہے۔ ان شاء اللہ۔
الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!
(۱) جی ہاں ! آپ کا ہم جماعت نصرانی دوست جو کھنا پیش کرے‘ وہ کھالینا درست ہے‘ خواہ اس کے گھر میں ہو یا کہیں اور‘ جب کہ آپ کو یقینی طور پر علم ہو کہ یہ فی نفسہ حرام نہیں ‘ یا جب اس کی کیفیت نامعلوم ہو۔ کیونکہ اس میں اصل جواز ہے حتیٰ کہ منع کی کوئی دلیل مل جائے اور محض اس کا عیسائی ہونا اس سے منع نہیں کرتا‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اہل کتاب کا کھانا کھانے کی اجاز ت دی ہے۔
(۲ ) جی ہاں ! آپ انہیں ایسی کتابیں پیش کرسکتے ہیں جن میں توحید وغیرہ کے اثبات کے لئے قرآن مجید کی آیات بھی درج ہوں ‘ خواہ وہ عربی زبان میں اصل آیات ہوں یا ان کا مفہوم دوسری زبانوں میں نقل کیا گیا ہو۔ بلکہ آپ کا یہ کام قابل قدر ہے‘ کیونکہ انہیں پیش کرنا‘ یا عاریتاً پڑھنے کے لئے دینا بھی دعوت اور تبلیغ کی ایک صورت ہے اور جب یہ کام خلوص نیت سے کیا جائے تو ضرور ثواب ملے گا۔
(۳) جی ہاں ! آپ کی نماز صحیح ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی اطاعت کا مزید شوق بخشے اور خصوصاً پنجگانہ کو بروقت اداکرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ لیکن ضروری ہے کہ آپ فرض نمازیں باجماعت اداکرنے کی کوشش کریں اورجہاں تک ممکن ہو فرض نمازیں مسجد میں ادا کریں۔
(۴) اگر آپ محض رواداری کے اظہار کےلیے کلیسا میں جاتے ہیں تو یہ جائز نہیں اور گر اس لئے جاتے ہیں کہ انہیں ا سلام کی طرف بلانے کا راستہ پیدا ہوسکے اور تبلیغ کا دائرہ وسیع ہوسکے اور آپ ان کی عبادت میں شریک نہ ہوتے ہوں اور ان عقائد یا رسم ورواج سے متاثر ہونے کا خدشہ نہ ہو‘ تو جائز ہے۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
اللجنة الدائمة۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز
فتویٰ (۶۸۷۶)
فتاوی بن باز رحمہ اللہ
جلددوم -صفحہ 80