کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 572
متفرق سوالات السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ نماز عیدین کب سے شروع ہوئیں اور کیوں؟ پہلے تھیں یانہیں؟ اگر نہ تھیں تو کیوں؟پہلے بھی تو اسلام تھا؟ 2۔ قربانی کب سے شروع ہوئی اور کیسے؟پہلے تھی یانہیں۔ اگر نہ تھی تو کیوں؟پہلے بھی اسلام تھا؟ 3۔ گوشت خنزیر کیوں حرام ہوا؟ 4۔ جب آدمی دیدہ دانستہ گانہ کرنے کے بعد توبہ کرنے تو کیوں بخشا جاوے گا؟ 5۔ جب مادہ نہ تھا تو خدا کس چیز کا خدا تھا۔ جب فرشتے بھی نہ تھے۔ توخدا کس کا خدا تھا؟یہ ایک میرے دوست آریہ صاحب کا سوال ہے۔ اور امید ہے۔ کہ پوری توجہ فرمائیں گے۔ (نیاز مند بابو عطا محمد ریلوے اسٹیشن بٹالہ خریدار اہلحدیث نمبر 35)  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! 1۔ عیدین کی نماز فرض نہیں کہ پہلے زمانہ میں بھی اس کی تلاش کی جائے۔ بلکہ ایک دینی رسم ہے۔ اور رسومات کی تبدیلی ہر نبی کے زمانہ میں بقرین مصلحت ہوتی رہی ہے۔ 2۔ قربانی پہلے بھی تھی۔ لِّکُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَکًا۔ بایئبل میں آج تک قربانیوں کے حکم ملتے ہیں۔ بلکہ ہندوں کی کتابوں میں بھی اس کا ثبوت ہے۔ منوجی فرماتے ہیں۔ یگیہ (قربانی) کے واسطے اور نوکروں کے کھانے کےواسطے اچھے ہرن اور پکسی (پرند)مارنے چاہیں (سند دیتے ہیں۔ )اگست رشی نے اگلے زمانے میں ایسا کیا۔ (سمرتی باب 5۔ فقرہ 22)اور بھی بہت سے حوالے ایسے ملتے ہیں۔ 3۔ خنزیر کا گوشت اخلاق کےلئے مضر ہے۔ اس حرمت بائبل اور منوسمرتی میں بھی ہے۔ (ملاحظہ ہوکتاب احبار باب 11 فقرہ 7) (منو سمرتی باب5 فقرہ 190) 4۔ بخشش تو توبہ کے وقت جو خلوص ہوتا ہے۔ اس پر مبنی ہے۔ اگر وہ ہے تو بخشش بھی ہے۔ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ وہ خلوص اس پر مبنی ہے۔ کہ توبہ کرنے کے وقت گناہ گار خدا کواپنا حقیقی مالک سمجھ کر اس کے آگےگناہ کااقرار کرے۔ اور اس کو بخشش مانگے۔ تو خدا بخش دینے کا وعدہ کرتا ہے۔ اسی لئے ارشاد ہے۔ وَہُوَ الَّذِی یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِہِ۔ اس آیت میں ''عباد''کی اضافت اپنی طرف کرکے قبولیت توبہ کی بناء اور فلاسفی بتلائی ہے۔ اشارہ کیا ہے۔ کہ قبولیت تو بہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کااصلی مالک اور ان کی فطرت سے واقف ہے وہ جانتا ہے کہ ان سے گناہ کا ہوجانا تعجب نہیں۔ اس لئے بخشش بھی محال نہیں ہے۔ 5۔ یہ سوال تو آریہ سماج پروارد ہوتے ہیں۔ ہم پر نہیں۔ کیونکہ آریوں کےنزدیک خدا مادہ کا اور روح کا خالق نہیں۔ بلکہ وہ اجسام کا خالق ہے۔ (بہت خوب) لیکن جس حالت میں بدع پرلے (فنا) کے تمام اجسام متشر ہوکر مادہ کی لطیف حالت میں چلے جاتے ہیں۔ اس وقت خدا کس چیز کا خدا ہوتا ہے۔ مادہ اور روح کا تو ہونہیں سکتا۔ کیونکہ وہ تو اس کی مخلوق نہیں۔ مخلوق نہیں تو مملوک بھی نہیں۔ پھر خدائی کیسی؟ہاں اسلام سرے سے اس بناء کو غلط قراردیتا ہے۔ اسلام کے نزدیک خدا کے سوا جو چیزیں ہیں۔ ان میں کوئی چیز بھی خدا کی عمر کے برابر نہیں۔ خدائی عمر میں کسی چیز کو برابر سمجھنا خدا کا شریک بنانا ہے۔ جس کو اسلام ہرگز پسند نہیں کرتا۔ اس لئے خد ا کی خدائی اس کا ذاتی وصف ہے۔ کسی مخلوق کے وجود پرمنحصر نہیں۔ بلکہ کسی چیز کا نہ ہونا ا س کی خدائی کے لئے ضروری ہے۔ تاکہ وہ ہر چیز کا خدا کہلاسکے۔ اس لئے اگر کوئی چیز اس کے برابر کی ہوئی تو وہ اس کا خُدا نہ ہوگا۔ حالانکہ اسلام کہتا ہے۔ پس اسلام پراعتقاد کھلےلفظوں میں ظاہر کرتا ہے۔ جب کچھ نہ تھا تب نرا کارتھا        خلقت کا پیدا کرنہار تھا۔ (اہلحدیث امرت سر 26فروری 1915ء)   فتاویٰ ثنائیہ جلد 2 ص 623