کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 523
ٹی وی پر میچ (کھیل) دیکھنا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ٹی وی پر کوئی میچ یا کھیل وغیرہ دیکھنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! ٹی وی پر میچ یا کھیل وغیرہ دیکھنا درج ذیل وجوہ کی رو سے ناجائز ہے: (۱)          اس میں فحاشی اور بے حیائی ہوتی ہے، مرد اور عورتیں ایک دوسرے کو بغیر شرعی دلیل یا عذر کے دیکھتے رہتے ہیں بلکہ بسا اوقات عریانی بھی ہوتی ہے۔ (۲)         اس میں گانا بجانا (معازف) اور اس قسم کے مذموم و ممنوع افعال ہوتے ہیں۔ (۳)         وقت کا ضیاع ہوتا ہے، لوگ اتنے منہمک رہتے ہیں کہ نہ نماز کی خبر ہے اور نہ دین و اخلاق کی پروا۔ (۴)         ان کھیلوں میں جوا بھی ہوتا ہے۔ (۵)         اس کا شمار لہو و لعب میں ہوتا ہے جو شریعت اسلامیہ میں جائز نہیں ہے۔ (۶)         بعض لوگ فتح یا شکست کو اپنی زندگی یا موت سمجھتے ہیں۔ بعض اوقات اپنی پسندیدہ ٹیم کی شکست پر خود کشی کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔ ان اور دیگر وجوہ کی رو سے یہ میچ یا کھیل دیکھنے جائز نہیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «وکل ما یلہوبہ المرء المسلم باطل، الا رمیہ بقوسہ و تادیبہ فرسہ و ملاعبتہ امرأتہ فانہن من الحق» اور ہر کھیل جو مسلمان کو (اللہ کی اطاعت سے) غافل کر دیتے ہیں، باطل ہیں سوائے تیر اندازی، (جہاد وغیرہ کےل ئے) گھوڑے پالنا اور صخاوند، دولہا کا) اپنی بیوی سے پیار و محبت کرنا (اور کتاب و سنت سے ثابت دوسری چیزیں) بے شک یہ صحیح  ہیں۔ (سنن ابن ماجہ: ۲۸۱۱، سنن الترمذی: ۱۶۳۷، وقال: حسن صحیح) یہ روایت حسن لذاتہ ہے۔ یحییٰ بن ابی کثیر نے مسند احمد (ج۴ ص۱۴۴) مں سماع کی تصریح کر رکھی ہے۔ الازرق (راوی) کو حافظ ابن حبان، حاکم (۹۵/۲) ذہبی اور ہیثمی (مجمع الزوائد ۳۲۹/۴) وغیرہم نے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے نیل المقصود (۲۵۱۳) اس حدیث کے شواہد بھی ہیں۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام) ج2ص506