کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 521
نماز ادا کرنے کے باوجود فلم اور گانے سننا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ایک عورت جو نماز پنجگانہ پابندی سے ادا کرتی ہے اور باقاعدہ تلاوت بھی کرتی ہے، لیکن ہر وقت اسے فلمی گانوں کا جنون رہتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹی وی پر فلم اور ڈرامہ دیکھنے کابھی شوق رکھتی ہے، اپنے سسرال کے ساتھ اچھا سلوک نہیں رکھتی بلکہ طیش میں آکر بعض اوقات وہ اپنے خاوند کو بھی گالیاں دیتی ہے، اس کی اجازت کے بغیر وہ گھر سے باہر سیروتفریح کےلئے چلی جاتی ہے۔ ایسی عورت کے متعلق شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! قرآن کریم نے نماز کے بہت سے اوصاف میں سے ایک وصف بایں الفاظ بیان کیا ہے:‘‘یقیناًنمازفحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔’’ (۲۹/العنکبوت:۴۵) یعنی نماز کا وصف لازم یہ ہے کہ وہ نمازی کو اخلاقی برائیوں سے روکتی ہے اور وصف مطلوب یہ ہے کہ اسے ادا کرنے والا فحش اور برے کاموں سے رک جائے۔ اب رہا یہ سوال کہ آدمی نماز کی پابندی کرنے کےباوجود عملاًبرائیوں سے باز کیوں نہیں آتا ، جیسا کہ صورت مسئولہ میں اس کا ذکر کیا گیا ہے تو اس بات کا انحصار خود اس شخص پر ہے جو نماز پڑھتے وقت اصلاح نفس کی تربیت لےرہا ہے ۔اگر وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے تو نماز کے اصلاحی اثرات اس پر ضرور مرتب ہوں گے اور اگر وہ اس کے برعکس اس کا اثر قبول کرنے کے لئے آمادہ ہی  نہیں یا دانستہ اس کی تاثیر کو دفع کرتا ہے تو ایسے بدبخت کی شقاوت میں کیا شک ہے۔ نماز کی قبولیت کا یہ ایک معیار ہے کہ نماز پڑھنے کے بعد انسان برائی کرنے سے رک جائے ، ایسے حالات میں یقیناً اس کی  نماز اللہ کے ہاں شرف قبولیت سے نوازی گئی ہے۔ سوال میں ذکر کردہ نماز اور تلاوت قرآن کے علاوہ دیگر تمام کام ناجائز  اور حرام ہیں۔ ایسے حالات میں خاوند کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خاموش تماشائی بننے کے بجائے اپنی بیوی کو احسن انداز سے وعظ و نصیحت  کرے اور گھر میں رہتے ہوئے اپنے اختیارات کو استعمال کرے اور اصلاح احوال کی کوشش کرے۔ اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ گھر میں ٹی وی کون لایا ہے؟یہ زہر آلود پودا خاوند کا خود گوشت کردہ ہے، اگر وہ اسے گھر میں  نہ لاتا تو اس تلخ حقیقت کا خطرہ دیکھنے سے محفوظ رہتا، پھر وہ عورت یہ سب برے کام خاوند کے سامنے کرتی ہے آخر وہ کس مرض کا علاج ہے، عین ممکن ہے کہ خاوند خود بھی ایسی باتوں کا عادی ہو اور اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بیوی میں یہ عادات بد پڑگئی ہوں۔قرآن کریم کی اس نصیحت پر عمل کرنا چاہیے: ‘‘اےایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو آتش جہنم سے بچاؤجس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔’’(۶۶/التحریم :۶) ان حالات کے پیش نظر خاوند کو چاہیے کہ وہ خود اپنی اور اپنی بیوی کو اصلاح کی طرف توجہ دےاور اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرے۔ (واللہ اعلم ) ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اصحاب الحدیث ج2ص414