کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 433
ہمارےگھرمیں ایک غیر مسلم ملازمہ ہے توکیا۔۔۔۔۔۔؟ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ہمارے گھرمیں ایک غیرمسلم ملازمہ ہے توکیا ہمارے گھر کی خواتین کے لئے اس کے ساتھ مل جل کربیٹھنا،سونااورکھانا جائز ہے؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! اس میں کوئی حرج نہیں اورعلماء کے صحیح قول کے مطابق گھرکی خواتین کے لئے اس سے پردہ کرنا واجب نہیں ہے ہاں البتہ یہ ضرورواجب ہے کہ اس سے ایک مسلمان عورت کا سامعاملہ نہ کریں بلکہ اس سے اللہ کی خاطر بغض رکھیں کیونکہ ارشادباری تعالی ہے: ﴿قَدْ کَانَتْ لَکُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِی إِبْرَ‌اہِیمَ وَالَّذِینَ مَعَہُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِہِمْ إِنَّا بُرَ‌آءُ مِنکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـہِ کَفَرْ‌نَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّیٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّـہِ وَحْدَہُ﴾ (الممتحنۃ۶۰/۴) ‘‘ (اے اہل ایمان) تمہارے لئے ابراہیم (علیہ السلام) اوران کے رفقاء (ساتھیوں) میں بہترین نمونہ ہے جب انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ ہم تم سےاوران (بتوں) سے جن کوتم اللہ کے سواپوجتے ہو،بےتعلق ہیں (اور) تمہارے (معبودوں کے کبھی قائل نہیں ہوسکتے) اورجب تک تم اللہ وحدہ پر ایمان نہ لاوہمارےاورتمہارےدرمیان کھلم کھلاعداوت اوردشمنی رہے گی۔’’ اوراہل خانہ پر واجب ہے کہ یہ ملازمہ اگر مسلمان نہ ہو تو اسے اس کے ملک میں واپس بھیج دیں کیونکہ یہ جائز نہیں کہ جزیرۃ العرب میں کوئی یہودی یا عیسائی یا کوئی اورمشرک،خواہ وہ مردہویا عورت باقی رہنے دیا جائےکیونکہ نبی کریمﷺنے یہ وصیت فرمائی تھی کہ انہیں اس جزیرہ سے نکال دیا جائے اورپھر ان امور کو سرانجام دینے کے لئے مسلمان مرد اورعورتیں بہت ہیں۔مسلمانوں میں ان کا وجوداس اعتبارسےبھی خطرہ سے خالی نہیں ہے کہ اس سے مسلمانوں کا عقیدہ واخلاق بھی خراب ہوتا ہے لہذاجزیرۃ العرب کے تمام مسلمانوں پر یہ واجب ہے کہ وہ خدمت یا دیگر کاموں کے لئے غیرمسلم ملازموں کو نہ رکھیں تاکہ نبی کریمﷺکی وصیت پر عمل کرسکیں اوران بے شمار خطرات ونقصانات سے بچ سکیں جو غیرمسلموں کے ساتھ اختلاط سے مسلمان مردوں اورعورتوں کے عقیدہ واخلاق کو لاحق ہوتے ہیں۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کو ان سے بے نیاز ہوجانے کی توفیق بخشے اوران کے شر سے محفوظ رکھے،انہ جوادکریم۔   مقالات وفتاویٰ ابن باز صفحہ 377