کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 409
عورتوں کا شرعی لباس
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
عورتوں کا شرعی لباس محرم رشتہ داروں کے سامنے کیسا ہو۔؟
الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!
عورت کے لیے محرم مرد کے سامنے اپنا سر، چہرہ اور ہاتھ اور گردن اور پاؤں ننگے کرنا جائز ہے، کیونکہ ان سے چھپانے میں مشقت ہے، اور فتنہ نہیں ہے.
اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے:
﴿ اوراپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں، اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں ﴾
ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی اس کی تفسیر میں کہتے ہیں:
" یعنی دوپٹے اور چادر اس قسم کی بنائے کہ اسے اپنے سینہ پر لٹکا کر رکھے، تا کہ اس کے نیچے سینہ اور پسلیاں وغیرہ کو چھپا کر اہل جاہلیت کی عورتوں کی مخالفت کریں، کیونکہ جاہلیت کی عورتیں ایسا نہیں کرتی تھیں، بلکہ ان کی عورتیں مردوں میں اپنا سینہ کھول کر چلتی تھیں، اور کچھ نہ چھپاتیی، اور بعض اوقات تو اپنی گردن اور بال اور کانوں کی بالیاں تک ننگی کر کے رکھتی تھیں، تو اللہ سبحانہ و تعالی نے مومن عورتوں کو حکم دیا کہ وہ اپنی حالتوں اور ہیئت چھپا کر رکھیں.
جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے حکم دیتے ہوئے فرمایا:
﴿ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادر لٹکا لیا کریں، اس سے بہت جلد ا نکی شناخت ہو جایا کریگی پھر وہ ستائی نہ جائینگی، اور اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے ﴾
اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا ہے:
﴿ اوراپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں ﴾
الخمر خمار کی جمع ہے، اور ڈھانپنے والے یعنی سر ڈھانپنے والی چادر کو کہتے ہیں جسے لوگ اوڑھنی یا دوپٹہ کا نام دیتے ہیں.
سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
و لیضربن کا معنی ولیشددن ہے، یعنی وہ اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر باندھ کر رکھیں، یعنی سینہ اور حلقوم میں سے کچھ نظر نہیں آنا چاہیے.
اور امام بخاری رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ ہمیں ابو یونس نے ابن شہاب سے بیان کیا انہوں نے عروۃ سے اور وہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ:
" اللہ تعالی مہاجر عورتو پر رحم فرمائے جب اللہ تعالی نے یہ آیت
﴿ اور وہ اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں ﴾.
نازل ہوئی تو انہوں نے اپنی چادریں پھاڑ کر اوڑھ لیں "
اور امام بخاری ایک دوسری روایت کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
ہمیں ابو نعیم نے حدیث بیان کی وہ کہتے ہیں انہیں ابراہیم بن نافع نے حسن بن مسلم سے بیان کیا کہ صفیہ بنت شیبہ بیان کرتی ہیں کہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کہا کرتی تھیں:
" جب یہ آیت نازل ہوئی :
﴿ اور وہ اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈال کر رکھیں ﴾.
تو ان عورتوں نے اپنی نیچے باندھنے والی چادروں کو کناروں سے دو حصوں میں پھاڑ لیا اور اس سے اپنے سروں اور چہروں کو ڈھانپ لیا "
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4759 ).
اور ابن ابی حاتم بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے باپ نے حدیث بیان کی وہ کہتے ہیں مجھے احمد بن عبد اللہ بن یونس نے حدیث سنائی وہ کہتے ہیں مجھے زنجی بن خالد نے حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں ہمیں عبد اللہ بن عثمان بن خثیم نے صفیہ بنت شیبہ سے حدیث بیان کی وہ کہتی ہیں کہ ہم عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں تو ہم نے قریش کی عورتوں اور ان کی فضیلت کا ذکر کیا تو عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کہنے لگیں:
" بلا شبہ قریش کی عورتوں کا بہت مقام و مرتبہ ہے، لیکن اللہ کی قسم میں نے انہیں انصار کی عورتوں سے افضل نہیں دیکھا: وہ اللہ کی کتاب کی بہت زیادہ تصدیق کرنے والی تھیں، اور اللہ کی طرف سے نازل کردہ پر بہت زیادہ ایمان رکھنے والی تھیں، سورۃ النور نازل ہوئی اور اس میں یہ آیت تھی:
﴿ اور وہ اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈال کر رکھیں ﴾.
تو انصاری مرد واپس آکر اپنی عورتوں کے سامنے اللہ تعالی کی جانب سے نازل کردہ تلاوت کرتا، اور مرد اپنی بیوی اور اپنی بیٹی اور اپنی بہن، اور اپنے ہر رشتہ دار کے سامنے نازل شدہ یہ آیت تلاوت کر رہے تھے، چنانچہ انصاری عورتوں میں سے کوئی بھی عورت نہ بچی الا یہ کہ اس نے اللہ تعالی کی کتاب میں نازل کردہ حکم کی تصدیق اور اس پر ایمان رکھتے ہوئے اپنی چادر کو اپنے اوپر اس طرح لپیٹ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کرنے لگیں گویا کہ ان کے سروں پر کوے ہیں "
اور اسے ابو داود رحمہ اللہ نے بھی حدیث نمبر ( 4100 ) میں دوسرے طریق سے صفیہ بنت شیبہ سے بھی بیان کیا ہے.
اور ابن جریر ( 18120 ) میں کہتے ہیں:
حدثنا یونس اخبرنا ابن وھب ان قرقرة بن عبد الرحمن اخبرہ عن ابن شھاب عن عروة عن عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا قالت:
" " اللہ تعالی پہلی مہاجر عورتو پر رحم فرمائے جب اللہ تعالی نے یہ آیت
﴿ اور وہ اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں ﴾.
نازل ہوئی تو انہوں نے اپنی چادریں پھاڑ کر اوڑھ لیں "
اور ابو داود نے اسے ابن وھب سے حدیث نمبر ( 4102 ) میں بیان کیا ہے.
دیکھیں: تفسیر ابن کثیر ( 3 / 283 ).
اور آپ نے جو کچھ کتابوں سے یہ نقل کیا ہے کہ: عورت اپنے بھائیوں اور اپنے والد سے بھی پردہ کرے، تو یہ بات حد سے بڑھی ہوئی اور غلط ہے صحیح نہیں.
حالانکہ اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان تو یہ ہے:
﴿ اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں، سوائے اپنے خاوندوں کے، یا اپنے والد کے، یا اپنے سسر کے، یا اپنے بیٹوں کے، یا اپنے خاوند کے بیٹوں کے، یا اپنے بھائیوں کے، یا اپنے بھتیجوں کے، یا اپنے بھانجوں کے، یا اپنے میل جول کی عورتوں کے، یا غلاموں کے، یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں، یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں، اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے، اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جانب توبہ کرو، تا کہ تم نجات پا جاؤ ﴾النور ( 31 ).
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
محدث فتوی
فتوی کمیٹی