کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 385
(113) شادی سے قبل زنا کے مرتکب افراد کا نکاح
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
کچھ عرصہ قبل کسی آدمی کی منگنی ہوئی پھر نکاح ہو گیا۔ اب جبکہ نکاح کو دو سال ہو چکے سائل کے بتانے پر پتہ چلا ہے کہ نکاح سے قبل اس کے لڑکی سے مراسم تھے جس سے وہ گناہ کے مرتکب ہو گئے اور نکاح سے قبل لڑکی حاملہ ہو گئی جس سے ان کا نکاح فاسد ہے لڑکا اور لڑکی دونوں صاحبِ علم ہیں اور اپنے اس فعل سے انتہائی شرمندہ ہیں، حمل بھی ضائع کروا کر خدا کے مجرم بنے اور دو سال گزر جانے کے بعد بقول ان کے انہوں نے خوف خدا کے تحت جماع نہیں کیا، پوچھنا یہ چاہتے ہیں کہ کیا ان کا نکاح دوبارہ ہو سکتا ہے؟ جبکہ ایک صاحب نے ان کو کہا ہے کہ آپ نے نکاح سے قبل جماع کیا ہے آپ زنا کے مرتکب ہوئے ہیں۔ لہٰذا جب تک آپ پر شرعی حد نہ لگے آپ کا نکاح دوبارہ نہیں ہو سکتا۔ انتہائی پریشان کن مراحل کا سامنا ہے کہ دو سال سے ایک گھر میں زندگی گزار رہے ہیں یہ بات بھی پردہ میں ہے گھر والے بھی پریشان ہیں کہ دو سال تک ناامیدی کیوں ہے۔ لہٰذا آپ سے التماس ہے کہ آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا بہترین حل نکال کر بتائیں کہ کیا واقعی ان کا نکاح دوبارہ ہو سکتا اور کیا لازمی ان پر حد آتی ہے؟ جواب دے کر پریشانی کا ازالہ کیجئے اور شکریہ کا موقع دیجئے۔
الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ!
الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!
اس میں کوئی شک نہیں کہ زنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے کسی انسان سے اگر یہ گناہ سر زد ہو جائے تو وہ اس پر شرمندہ ہو کر اللہ تعالیٰ سے توبہ کر لیتا ہے تو قرآن میں اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے بارے میں فرماتے ہیں:
﴿وَالَّذِینَ لَا یَدْعُونَ مَعَ اللَّـہِ إِلَـٰہًا آخَرَ وَلَا یَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللَّـہُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُونَ ۚ وَمَن یَفْعَلْ ذَٰلِکَ یَلْقَ أَثَامًا ﴿٦٨﴾ یُضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَیَخْلُدْ فِیہِ مُہَانًا ﴿٦٩﴾ إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَـٰئِکَ یُبَدِّلُ اللَّـہُ سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَکَانَ اللَّـہُ غَفُورًا رَّحِیمًا ﴿٧٠﴾...الفرقان
''اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ ہی ایسی جان کو قتل کرتے ہیں جس کے قتل سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرتا ہے وہ اپنے کئے کی سزا بھگتے گا۔ قیامت کے دن اس کے لئے عذاب دوگنا کیا جائے گا اور وہ اس میں ذلیل ہو کر رہے گا مگر جن لوگوں نے ایسے گناہوں سے توبہ کر لی اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کئے اللہ تعالیٰ ان کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دے گا اور اللہ بخشنے والا بڑا مہربان ہے''۔(الفرقان : ۶۸ ۔۷۰)
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ آدمی اگر زنا سے توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتے ہیں اور جب اس نے توبہ کر لی اور اس کا معاملہ حاکم تک نہ پہنچا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ پر پردہ ڈال دیا تو پھر اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے دنیا میں اس پر حد لازم نہیں ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث ہے عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض صحابہ رضی اللہ عنہ سے بعض محرمات سے اجتناب کے لئے بیعت لی۔ ان میں ایک زنا بھی تھا۔ آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( فمن وفی منکم فأجرہ علی اللہ و من أصاب منہا شیئا فسترہ اللہ فہو إلی اللہ إن شاء عذبہ ز إن شاء غفر لہ.))
''جس نے بیعت پوری کی اس کا اجر اللہ پر ہے اور جو ان میں سے کسی چیز میں مبتلا ہو گیا اور اسے اس کی سزا دی گئی تو وہ اس کے لئے کفارہ بن جائے گی اور اگر وہ کسی گناہ کو پہنچا تو اللہ نے اس پر پردہ ڈال دیا پس وہ اللہ کی طرف ہے۔ اگر چاہے اسے عذاب دے دے اور اگر چاہے تو اسے بخش دے'' (بخاری مع الفتح ۷/۲۶۰،۱۲/۷۵ یہ حدیث ترمذی ، نسائی اور دارمی میں بھی موجود ہے)
اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر آدمی سے زنا وغیرہ سرزد ہو گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر پردہ ڈال دیا تو اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے اس کے اقرار اور اصرار کے بغیر دنیا میں اس پر حد جاری نہیں کی جائے گی ۔ اس سے بڑھ کر اگر کسی کو کسی دوسرے مسلمان کے بارے میں کوئی ایسی چیز معلوم ہوتی ہے جس سے اس پر حد لازم آتی ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو آپس میں معاف کرنے کا حکم دیا ہے۔ فرمایا:
(( و تعافوا الحدود فیما بینکم فما بلغنی من حد فقد و جب))
''آپس میں حدود معاف کرو جو مجھ تک پہنچ گئی وہ واجب ہو گئی''
(صحیح سنن ابی دائود البانی ج۳٣، ص۸۲۸، صحیح سنن نسائی ج۳،ص۸۷۷۸)
اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگرچہ امام، حاکم یا قاضی تک نہیں تو واجب نہیں ہوئی اس لئے صورت مسئولہ میں شرعی حد سائل پر واجب نہیں ہے جب تک وہ حاکم تک نہیں پہنچتی اس کا معاملہ اس کے ساتھ ہے اور زانی کا حد لگنے کے بغیر زانیہ سے نکاح ہو سکتا ہے جب دونوں توبہ صادقہ کر لیں۔ تفسیر ابنِ کثیر میں عبداللہ بن عباس سے صحیح سند سے مروی ہے۔ کسی نے پوچھا :
(( إنی کنت ألم بإمرأة آتی منہا ما حرم اللہ عز و جل علی فرزق اللہ من ذالک توبة فأردت ان تزو جہا فقال الناس إن الزانی لا ینکح إلا زانیة او مشرکة فقال إبن عباس لیس ہذا فی ہذا إنکحہا فما کان ہنا فی ہنا من إثم فعلی.)) ( تفسیر ابن کثیر عربی .ج 3 . ص 264)
''ابن عباس سے کسی نے پوچھا میں ایک عورت سے حرام کا ارتکاب کرتارہاہوں مجھے اللہ نے اس فعل سے توبہ کی توفیق دی۔ میں نے توبہ کر لی میں نے اس عورت سے شادی کا ارادہ کر لیا تو لوگوں نے کہا زانی مرد صرف زانیہ عورت اور مشرقہ عورت سے نکاح کر سکتاہے۔ ابنِ عباس نے کہا یہ اس بارے میں نہیں ہے تو اس سے نکاح کر لے اگر اس کا گناہ ہوا تو وہ مجھ پر ہے۔''(تفسیر ابن کثیر عربی،ج ۳' ص۲۲۴)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مرد اور عورت جنہوں نے بدکاری کا فعل کیا ہے اگر توبہ کر لیتے ہیں تو بغیر شرعی حد کے ان کا نکاح ہو سکتاہے کیونکہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے نہیں کہا کہ پہلے حد لگواؤ پھر نکاح کرو۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ حم کے وقت جو ان دونوں کا نکاح ہوا تو اوہ نکاح صحیح نہیں ہو گا کیونکہ اس نے عدت میں نکاح کیا اور عدت میں نکاح صحیح نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُہُنَّ أَن یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ ... ٤﴾...الطلاق
''حمل والیوں کی عدت وضع حمل ہے''(الطلاق)
دوسری جگہ فرمایا:
﴿وَلَا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّکَاحِ ... ٢٣٥﴾...البقرة
''اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک عدت ختم نہیں ہو جاتی۔''(بقرہ : ۲۳۵)
حافظ ابنِ کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ
" قد أجمع العلماء علی أنہ لا یصح العقد فی مدة العدة "
''کہ اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ عدت کے اندر نکاح صحیح نہیں ہے''
اس لئے سائل نکاح جدید کروائے۔ کوئی حرج نہیں یہ نکاح ہو جائے گا ۔ جیسا کہ دلائل سے واضح ہو چکا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
آپ کے مسائل اور ان کا حل
ج 1