کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 35
ناخنوں کا بڑا ہونا
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
ناخن اول تو بڑے ہونے نہیں چاہیں۔ مگر پھر بھی اگر بھول چوک ہو جائے، نہ یاد رہے اور وہ بڑے ہو جائیں تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے ۔؟
الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!
ناخن تراشنے فطرتی سنت میں داخل ہوتے ہیں کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
" پانچ چیزیں فطرتی ہیں: ختنہ کرنا، زیرناف بال صاف کرنا، مونچھیں کاٹنا، اور ناخن تراشنا، اور بغلوں کے بال ا کھیڑنا "
اسے امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
اور ایک دوسری حدیث میں دس فطرتی سنتیں بیان ہوئی ہیں جن میں ناخن تراشنا بھی شامل ہے۔
انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
" رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے مونچھیں کاٹنے، اور ناخن تراشنے، اور بغلوں کے بال اکھیڑنے، اور زیرناف بال مونڈنے میں طے کیا کہ ہم انہیں چالیس یوم سے زیادہ نہ چھوڑیں "
اسے امام احمد، امام مسلم، اور امام نسائی نے روایت کیا ہے، اور یہ الفاظ احمد کے ہیں۔
اس لیے ناخن نہ تراشنے والا شخص فطرتی سنتوں میں سے ایک سنت کا مخالف ہے، اور اس میں حکمت صفائی و ستھرائی ہے، کہ ناخنوں کے نیچے میل کچیل جمع ہو جاتی ہے، اور پھر اس میں کفار کی مشابہت سے بھی اجتناب ہے جو اپنے ناخن لمبے رکھتے ہیں، اور پھر حیوانوں اور وحشی جانور جن کے لمبے لمبے ناخن ہوتے ہیں ان سے بھی مشابہت نہیں ہوتی۔
دیکھیں:فتاوی اللجنة الدائمة للبحوث العلمیةوالافتاء ( 5 / 173 ).
آج عورتوں کی اکثریت ناخن لمبے رکھ کر پھر انہیں مختلف قسم اور رنگا رنگ نیل پالش سے رنگ کر وحشی جانوروں اور کفار کی مشابہت میں پڑی ہوئی ہے، اور یہ منظر انتہائی قبیح اور غلط نظر آتا ہے، اور ہر عقل مند اور سلیم فطرت رکھنے والے شخص کو اس سے نفرت پیدا ہوتی ہے، اور اسی طرح بعض لوگوں کی بری عادت یہ بھی ہے کہ وہ اپنا ایک ناخن لمبا رکھتے ہیں۔
یہ سب فطرتی سنت کی واضح اور بین مخالفت ہے، اللہ تعالی سے ہماری دعا ہے کہ وہ ہمیں سلامتی و عافیت نصیب فرمائے، اللہ تعالی ہی صحیح اور سیدھی راہ کی طرف راہنمائی کرنے والا ہے۔
شیخ صالح المنجد اس بارے ایک فتوی کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
ناخن لمبے کرنا اگر حرام نہ بھی ہوں تو یہ مکروہ ضرور ہیں، کیونکہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ناخن کاٹنے کے لیے وقت مقرر کرتے ہوئے حکم دیا کہ وہ چالیس یوم سے زیادہ نہ چھوڑیں جائیں۔
اسے امام مسلم نے کتاب الطہارت حدیث نمبر ( 258 ) میں روایت کیا ہے۔
یہ بات اور بھی بہت عجیب و غریب سی ہے کہ جو لوگ ترقی یافتہ اور شہری ہونے کے دعوے کرتے ہیں وہ ان ناخنوں کو کاٹتے ہی نہیں بلکہ لمبے کرتے ہیں، حالانکہ ان میں گندگی اور میل کچیل پھنسی ہوتی ہے اور اس سے انسان حیوان کے مشابہ ہونے لگتا ہے۔
اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" جو چیز خون بہائے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اسے کھالو، دانت اور ناخن .... دانت تو ہڈی ہے، اور ناخن حبشیوں کی چھری "
صحیح بخاری الشرکة حدیث نمبر ( 3507 ) صحیح مسلم کتاب الاضاحی حدیث نمبر ( 1968 )۔
یعنی وہ اپنے ناخنوں کو چھری بنا کر اس سے ذبح کرتے اور گوشت وغیرہ کاٹتے ہیں، یہ تو ان لوگوں کا طریقہ ہے جو وحشی جانوروں کی طرح ہیں۔
دیکھیں: کتاب الدعوة ( 5 ) الشیخ ابن عثیمین ( 2 / 79 )۔
درج بالا فتاوی سے یہ نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں:
1۔ پس چالیس دن سے زائد ناخنوں کو لمبا کرنا ،ناجائز ہے۔
2۔چالیس دن آخری حد ہے ، اس کا مطلب یہ نہیں ہےکہ چالیس دن بعد ہی کاٹے جائیں۔
3۔ انسان کو کوشش کرنی چاہیے کہ جیسے ہی انسان کے ناخن اتنے لمبے ہوں کہ ان میں میل کچیل کے جمع ہونے کے امکانات ہوں تو انہیں کاٹ لے اور یہی سنت مطہرہ ہے۔
4۔ ناخن لمبے ہونے سے کھانے پینے کے حرام ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے اگرچہ ناخنوں میں جمع شدہ میل کچیل انسان کے کھانے پینے کی اشیاء کے ذریعے اس کی صحت کے لیے ضرر رساں ہو سکتی ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
محدث فتوی
فتوی کمیٹی