کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 33
عورت کا محرم کے بغیر سفرکرنا
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
کیا عورت محرم کے بغیر سفر کر سکتی ہے اگر کر سکتی ہے تو کتنا۔؟
الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!
عورت محرم کے بغیر سفر نہیں کر سکتی ہے لیکن اب سفر کی تعریف میں اختلاف ہے کہ سفر کسے کہیں گے۔ جمہور اہل علم کے نزدیک سفر کم از کم ۴۸ میل یعنی ۸۰ کلومیٹر بنتا ہے جبکہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نزدیک جسے عرف میں سفر کہیں گے وہ سفر ہو گا اور جو اپنے وقت کے عرف میں سفر نہ کہلاتا ہو وہ سفر نہیں ہو گا۔
شیخ صالح المنجد اپنے ایک فتاوی میں لکھتے ہیں:
شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی نے سفر کے بارہ میں مجموع الفتاوی میں کہا ہے :
جمہور اہل علم کے ہاں گاڑی میں تقریبا اسی کلومیٹر بنتا ہے ، اوراسی طرح ہوائی جہاز اورکشتیوں اوربحری جہازوں کی مسافت بنتی ہے۔ اسی 80 کلومیٹر یا اس کے قریب کی مسافت کو سفر کا نام دیا جاتا ہے اورعرف عام میں سفر شمار کیا جاتا ہے ، اور مسلمانوں میں بھی یہ سفر معروف ہے ،لہذا اگرکوئی انسان اونٹ پر یا پیدل یا گاڑی یا پھر ہوائی جہاز یا بحری جہاز اورکشتیوں اتنی یا اس سےزیادہ مسافت طے کرکے تواسے مسافر قرار دیا جائے گا ۔ ا ھـ
دیکھیں : مجموع الفتاوی ( 12 / 267 ) ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے پوچھا گیا کہ : نماز قصر کی مسافت کیا ہے ، اورکیا بغیر قصر کے نماز جمع کی جاسکتی ہے ؟
توشیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :
بعض علماء کرام نے نماز قصر کرنے کے لیے تراسی ( 83 ) کلومیٹر کی مسافت مقرر کی ہے ، اوربعض کہتے ہیں کہ عرف عام میں جسے سفر کہا جائے اس میں نماز قصر ہوگی چاہے اس کی مسافت تراسی کلومیٹر نہ بھی ہو ، اورجسے لوگ سفر نہ کہیں وہ سفر نہیں چاہے وہ ایک سو کلو میٹر ہی کیوں نہ ہو ۔
یہی آخری قول شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے اختیار کیا ہے ، کیونکہ اللہ تعالی نے بھی نماز قصر کے جواز میں مسافت کی تحدید نہیں کی اوراسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی کوئی معین مسافت محدد نہیں فرمائی ۔
اورانس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تین میل کی مسافت کے لیے یا پھر تین فرسخ کی مسافت کےلیے نکلتے تو نماز دو رکعت ادا کیا کرتے تھے ۔صحیح مسلم حدیث نمبر ( 691 ) ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کا قول اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے ۔
اس میں کوئی حرج نہیں کہ عرف عام میں اختلاف کی بنا پر انسان مسافت کی تحدید کے قول پر عمل کرلے ، اس لیے کہ یہ قول بعض ائمہ اورعلماء مجتہدین کا ، اس پرعمل کرنے میں ان شاء اللہ کوئی حرج نہیں ، لیکن جب معاملہ مضبوط ہو توپھر عرف عام کی طرف رجوع کرنا ہی صحیح ہے ۔ اھـ
دیکھیں : فتاوی ارکان الاسلام صفحہ ( 381 ) ۔
واللہ اعلم .
پس عرف کا قول لیا جائے یا ۸۰ کلومیٹر کا، کم ازکم شہر کی حدود میں ایک شخص مسافر شمار نہیں ہوتا ہے۔
جہاں تک شہر کی حدود سے باہر کا تعلق ہے تو اس بارے عرف والا قول راجح معلوم ہوتا ہے اور عرف میں شہر کی حدود سے باہر ایک شخص مسافر شمار ہوتا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
محدث فتوی
فتوی کمیٹی