کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 30
(91) اہل میت کے لیے کھانا پکانا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ وفات کے وقت کھانے کا بندوبست کن لوگوں کی طرف سے ہونا چاہئے  اور کتنے دنوں کے لیے ہونا چاہئے ۔ نیز موجودہ رائج سسٹم کس حد تک درست ہے ؟ (حافظ محمد زاہد ،فیصل آباد) الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! جس گھر میں فوتیدگی ہو جائے تو ان کے کھانے بندوبست میت کے قریبی رشتہ دار وں یا پڑوسیوں کو کرنا چاہئے  کیونکہ حدیث میں آتا ہے : (( عن عبد اللہ بن جعفرقال  لما جاء نعی جعفر  قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم إصنعوا لأل جعفر طعما فقد أتاہم ما یشغلہم )) عبد اللہ بن جعفر نے کہا کہ جب جعفرکی وفات  کی خبر آئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو ان کے پاس ایسی چیز آئی ہے  جو ان کو مشغول رکھے گی۔( مستدرک حاکم 1/372،ابو داؤد2/59، ترمذی 2/137) اس حدیث  کو امام حاکم نے صحیح کہا ہے اور امام  ذہبی نے تلخیص میں ان کی موافقت کی ہے ۔ امام ابن سکن  نے بھی اسے صحیح کہا ہے ۔یعنی سیدنا  جعفر غزوۃ  موتہ میں شہید ہوئے جب ان کی شہادت کی خبر آئی  تو اللہ کے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو کہا کہ جعفر  کے گھر والوں  کے لیے کھانا تیار کرو  کیونکہ وہ تو پریشانی میں  مبتلا ہیں ، کھانا نہیں پکا سکیں ۔ اس کھانے کو عام لوگوں کے لیے دعوت کی صورت بنا  لینا  درست نہیں ہے اور نہ ہی میت کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرنا چاہئے بلکہ یہ ان کے عزیز و اقارب کا حق ہے ۔ جیسا کہ سیدنا جریر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ : (( کنا نری الإجتماع إلی أہل المیت و صنعة الطعام  من  النیاحة )) ’’ ہم اہل میت کے ہاں  جمع ہونا اور وہاں کھنا تیار کرنا نوحہ شمار کرتے تھے ‘‘ (ابن ماجہ 1/513(1612) احمد حدیث نمبر 6905 ، 11/ 125،126 پر ان الفاظ سے یہ روایت مروی ہے : (( کنا نعد الإجتماع إلی أہل المیت و صنیعة  الطعام بعد دفنہ  من النیاحة.)) ’’ ہم اہل میت کے ہاں جمع ہونا اور میت کے دفن کے بعد وہاں کھانے کا انتظام کرنا نوحہ شمار کرتے تھے ‘‘ اور نوحہ شریعت میں حرام ہے ۔  شیخ احمد محمد شاکر مسند احمد کے حاشیہ پر اس کی یوں شرح کرتے ہیں کہ : " والمراد بصنعة الطعام ہنا : ما یصنعہ أہل المیت لضیافة  الواردین للعزاء  زعموا فإن السنة أن یصنع الناس الطعام لأہل  المیت لا أن یصنعوہم للناس لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم ... إصنعوا لأل جعفر طعاما ." صنعۃ الطعام کا مطلب یہ ہے کہ اہل میت ان بوگوں کے لیے جو ان کے ہاں تعزیت کے لیے آتے ہیں کھا نا تیار کریں ...حالانکہ سنت یہ ہے کہ لوگ اہل میت  کے لیے کھانا تیار کریں  نہ اہل میت لوگوں کے لئے ۔ اس لیے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے جعفر ﷜ شہید ہوئے تو کہا تھا کہ آل جعفر کے لیے کھا نا تیار کرو۔ علامہ ابن ہمام نے فتح القدیر 1/437 میں ایسے کھانے کے متعلق لکھا ہے ’’ وھی بدعة قبیحة‘‘ یہ قبیح بدعت ہے ۔ اس مسئلہ پر ائمہ اربعہ اور اور دیگر محدثین کا اتفاق ہے جیسا کہ الفتاح الربانی۸/۹۰ میں مرقوم ہے۔             البتہ جو مہمان دور دراز سے تعزیت کےلیے آتے ہیں ان کےلیےکھانے کا بندوسبت کرنا درست ہے کیونکہ وہ اہل میت کےکھانے کے ضمن میں ہی آتے ہیں ۔             اور ہمارے ہاں جو براردری سسٹم رائج ہے اس میں یہ خرابی ہے کہ یہ کھانا عوض و معاوضہ بن چکا ہے اور جتنی دیر تک اس کھانے کا عوض نہ دیا جائے اتنی دیر تک برادری والے اس کو قرض سمجھتے ہیں ۔ ہمیں یہ خرابی دور کر کے صحیح سنت کے مطابق کام کرنا چاہئے اللہ تعالیٰ توفیق دے۔ آمین  ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب آپ کے مسائل اور ان کا حل ج 1