کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 3
(356) ذمی رعیت نیا عبادت خانہ تعمیر نہیں کرسکتی
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
کیا ذمی رعیت نیا عبادت خانہ تعمیرکرسکتی ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال
الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!
۔ قاضی ابو یوسف تصریح فرماتے ہیں :
ویمنعوا من أن یحدثوا بناء بیعة أو کنیسة فی المدینة إلا ما کانوا صولحوا علیہ وصاروا ذمة وہی بیعة لہم أو کنیسةفما کان کذلک ترکت لہم ولم تہدم. (کتاب الخراج لابی یوسف :ص 127)
کہ عیسائیوں کے نیا صومعہ اور گرجا تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہو گی ۔ البتہ جو معاہدے کے وقت گرجا موجود ہو گا اس کو گرایا نہ جائے گا ۔
وما احدث من بناء بیعة او کنیسة فان ذالک یہدم . (کتاب الخراج لابی یوسف ۔ ص 159)
نیا بیعہ اور کنیسہ گرا دیا جائے گا ۔
2۔امام ابوالحسن علی بن محمد الماوردی المتوفیٰ 450ھ رقم فرماتے ہیں :
لایجوز ان یحدثوا فی دار السلام بیعة ولاکنیسة فان احدثوہا ہدمت علیہم . (الاحکام السطانیة : 146)
کہ اہل ذمہ کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ دارالسلام میں نیا بیعہ یا کنیسہ تعمیر کریں گے تو اس کو گرا دیا جائے گا ۔
3۔ امام ابو زکریا محی الدین یحییٰ بن شرف النووی شافعی المتوفیٰ 676ھ تصریح فرماتے ہیں :
ویمنعون من احداث الکنائس والبیع والصوامع فی بلاد المسلمین لما روی عن ابن عباس رضی اللہ عنہ أنہ قال ( أیما مصر مصرتہ العرب فلیس للعجم أن یبنوا فیہ کنیسة. ( شرح المھذب ج:19 ص: 412طبع دار الفکر )
مسلمانوں کے شہروں میں ذمیوں کو کنائس ، بیعے اور صومعے بنانے کی اجازت نہیں کیونکہ ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمانے فرمایا کہ جس شہر کومسلمان نئے سرے سے آباد کریں ، اس میں غیر مسلم اقلیتوں کو گرجا وغیرہ بنانے کاحق نہیں ۔
4۔ قاضی ابو یعلیٰ حنبلی المتوفی 458ھ رقم فرماتے ہیں :
لایجوز ان یحدثوا فی دار السلام بیعة ولاکنیسة فان احدثوہا ہدمت علیہم . (الاحکام السلطانیة : 146)
اس کا ترجمہ پہلے گزر چکا ہے ۔
5۔ امام محمدبن قدامہ رحمہ اللہ حنبلی اور امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
لا نحدث فی مدینتنا کنیسة ولا فیما حولہا دیرا ولا قلایة ولا صومعة راہب ولا نجدد ما خرب من کنائسنا ولا ما کان منہا فی خطط المسلمین ، وأن لا نمنع کنائسنا من المسلمین أن ینزلوہا فی اللیل والنہار ، وأن نوسع أبوابہا للمارة وابن السبیل ، ولا نؤوی فیہا ولا فی منازلنا جاسوسا. (المغنی لابن قدامہ : ج9 ص 282)
جزیرہ کے ذمیوں نے حضرت عبدالرحمن بن غنم رضی اللہ عنہ سے جومعاہدہ کیا تھا اس میں یہ شرط بھی تھی کہ آج کے بعد ہم اپنے شہر کو اس کے گرد دیر اور قلایہ تعمیر نہیں کریں گے اور نہ کسی راہب کے لئے نیا صومعہ بنائیں گے ۔ اوران میں سے جو گر جائے گا ۔ اس کو دوبارہ تعمیر نہیں کریں گے اور اس طرح جو گرجا گھر وغیرہ مسلم آبادی میں ہو گا اس کو بھی دوبارہ نہیں بنائیں گے ہم اپنے گرجا گھروں کو مسلمانوں کے لئے رات دن کھلا رکھیں گے اور اسی طرح گزرنے والوں اور مسافروں کےلئے ان کے دروازے وسیع رکھیں گے تاکہ ان میں آرام کر سکیں ۔ نہ ہم ان گرجا گھروں میں کسی جاسوس کو ٹھہرائیں گے ۔
6۔امام ابن قیم فرماتے ہیں : حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عامل حضرت عبدالرحمن بن غنم رضی اللہ عنہ سے جزیرہ کے عیسائیوں نے از خود معاہدہ کیا تھا اس میں یہ بھی تھا ۔
ان شرطنا لک علی انفسنا ان لا نحدث فی مدینتنا کنیسة ولا فیما حولہا دیرا ولا قلایة ولا صومعة راہب ولا نجدد ما خرب من کنائسنا.(حقوق اھل الذمہ : ج2 ص 259۔ 660۔ تحقیق الدکتور صبیحی صالح ۔ طبع دمشق )
ترجمہ اس کا اوپر ابن قدامہ کی عبارت میں آ چکا ہے ۔
ان ائمہ کرام اورماہرین قوانین اسلام کی تصریحات سے ثابت ہوا کہ عیسائیوں اور یہودیوں کو جب کہ وہ اہل کتاب بھی ہیں ۔ مسلم ممالک میں نئے گرجے اور عبادت خانے تعمیر کرنے کی اسلام اجازت نہیں دیتا ۔ اور جو گرجائے اس کی تجدید بھی جائز نہیں ، جیسا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
لما روی کثیر بن مرة قال سمعت صلی اللہ علیہ وسلم لا تبنی الکنیسة فی دار السلام ولا یجدد ما خرب منہا – ( شرح المہذب : ج19 ص 413)
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دار السلام میں گرجا وغیرہ گر جائے تو اس کی تجدید بھی جائز نہیں ۔ جب اہل کتاب عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دار السلام میں گرجے اور صومعے تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی ، حالانکہ وہ اہل کتاب ہیں تو پھر قادیانی مرتدوں اور کافروں کو دار السلام اور مسلمان ملک میں مسجد کے نام سے عبادت خانہ بنانے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے ، اور وہ اپنے مذہبی مرکز کو مسجد کے نام سے کیسے پکار سکتےہیں ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ محمدیہ
ج1ص866