کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 285
سنت کے لغوی اور اصطلاحی معنی بیان فرمائیں ؟ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ سنت کے لغوی اور اصطلاحی معنی بیان فرمائیں ؟     ابو الاحسان امان اللہ بہاولپور الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! لفظ سنت کے چار اطلاق واستعمال ہیں ایک لغوی اور تین اصطلاحی ۔ لغت میں سنت کا معنی لیا جاتا ہے ’’الطریقۃ المسلوکۃ‘‘ بعض کہتے ہیں ’’الطریقۃ المعتادۃ‘‘ اور بعض نے لکھا ہے ’’الطریقۃ المحمودۃ‘‘ پہلے دونوں معانی تیسرے معنی سے اعم اخص من وجہ ہیں اب اصطلاحی تین معانی سماعت فرمائیں ۔ (۱) رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ، افعال اور تقاریر سنت ہیں سنت کا لفظ جب دلائل کے بیان میں بولا جائے تو اس وقت اس کا یہی معنی لیا جاتا ہے جیسے کہا جاتا ہے ’’ہٰذَا الْحُکْمُ ثَابِتٌ اَوْ ثَبَتَ بِالسنۃ‘‘ (۲) مندوب کو سنت کہا جاتا ہے یہ معنی عموماً اس وقت مراد لیا جاتا ہے جب سنت کا لفظ احکام میں استعمال کیا جائے مثلاً ’’اَلاَمْرُ الْفُلاَنِی سُنَّۃ ٌ‘‘ بولا جائے تو مقصود یہ معنی ہو گا کہ وہ مندوب ہے نہ واجب وفرض ہے نہ مباح نہ ہی مکروہ ہے اور نہ ہی مخطور وحرام ۔ (۳) وہ چیز جو بدعت نہ ہو اس کو بھی سنت کہہ دیا جاتا ہے خواہ وہ فرض وواجب ہی کیوں نہ ہو ۔ تو اس معنی میں سنت بدعت کا مقابل ہے جیسے پہلے معنی میں قرآن سے اور دوسرے معنی میں فرض ، مباح ، مکروہ اور حرام سے متقابل ہے ۔ اب ان تین اصطلاحی معانی سے کسی ایک کا تعین عبارت وکلام کے سیاق ، سباق ، لحاق اور قرائن کو دیکھ کر کیا جائے گا جیسا کہ مشترک الفاظ کا وطیرہ ہے شریعت کتاب وسنت میں ان اصطلاحی تخصیصات کو ملحوظ نہیں رکھا گیا اس لیے قرآن وحدیث کے الفاظ کو مصطلحات علوم وفنون پر محمول کرنا درست نہیں اور اصطلاحی معانی کے اثبات کے لیے اہل اصطلاح سے نقل کافی ہوتی ہے قرآن وحدیث سے دلائل پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی مزید معلومات کی خاطر ارشاد الفحول سے سنت کی بحث کا مطالعہ فرما لیں ۔ واللہ اعلم                ۲۳/۱/۱۴۱۵ہـ   قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل جلد 01 ص 559