کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 231
(294)برے کام میں مدد کرنا منع ہے السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ شناختی کارڈ کے محکمہ میں کام کرنے والے ایک صاحب نے مسئلہ پوچھا ہے۔ جس کا خلاصہ ہے کہ جو شخص کوئی دوسرا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کرتا ہے اسے نام تبدیل کرنا پڑتا ہے‘ خا ص طور پر جب کہ اس کا نام اسلام کے خلاف ہو۔ اس کے بعد ان نومسلموں میں سے اگر کوئی شخص اسلام سے نکل جائے تو ضروری ہے کہ اس کا سابقہ نام (غیر مسلموں والا) بحال کر دیا جائے۔ کیونکہ اس بنیاد پر بہت سے معاملات متاثر ہوتے ہیں بعض امور کا تعلق دین اسلام سے ہے اور بعض کا ان معاملات سے جن میں کافروں کا قانون چلتا ہے۔ مثلاً وراثت، شادی بیاہ اور دوسرے انفرادی مسائل۔ چونکہ سائل محکمہ شہری امور کے شعبہ شناختی کارڈ میں کام کرتا ہے تو کیا ان سے ان ناموں کی تبدیلی کی وجہ سے گناہ ہوگا؟ اور کیااس کا یہ سرکاری کام اس کی طرف ارتداد کی تائید شمار ہوگا؟ جب کہ اسے اکثر اوقات یہ احکام افسران بالا کی طرف سے وصول ہوتے ہی؟ ان تمام مسائل میں شرعی حکم کیا ہے؟ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! جب آپ کو معلوم ہے کہ نام کی تبدیلی کی درخواست دینے والا اسلام چھوڑ کر کفر اختیار کرہا ہے تو آپ کو اس کام میں کسی قسم کا تعاون نہیں کرناچاہئے۔اگرچہ آپ کا افسر آپ کو حکم دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوَیٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ... ٢﴾...المائدة ’’نیکی اور تقویٰ کے کام ایک دوسرے کا تعاون کرو‘ گناہ اور زیادتی کے کام میں تعاون نہ کرو۔‘‘ اور اللہ کے رسول اللہﷺ نے فرمایا: (لَعَنَ آکِلَ الرِّبَا وَمُوکَلَہ وَکَاتِبَہ وَشَاھِدَیْہ) ’’سود لینے والے‘سود دینے والے‘ اسے لکھنے والے اور اس معاملہ میں گواہ بننے والے (سب) ملعون ہیں۔‘‘ اور فرمایا: (ھُمْ سَوَاء) وہ سب (گناہ میں) برابرہیں۔‘‘ جب سعودی معاملات میں تعاون کرونے لا ملعون ہے تو اس شخص کا کیا حال ہوگاجو کفر میں پختہ رہنے پر تعاون کرتا ہے اور مرتد ہونے والوں کے کاموں میں سہولت پیدا کرتا ہے؟ نبیﷺ نے ارشاد فرمایا: (إنَّمَا الطَّاعة فِی الْمَعْرُوْفِ) ’’اطاعت صرف نیکی ہوتی ہے‘‘ اور فرمایا: (لَا طَاعَة لَلْمَخْلُوقِ فی مَعْصِیَة الْخَالِقِ) ’’خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں۔‘‘ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ دارالسلام ج 1